اولاد

 دیدہ و دل۔۔۔۔ ڈاکٹر ندا ایلی 
مجھے آج بھی یاد ہے۔۔۔میرے امتحان تھے ۔۔۔ منے نے ابھی گردن سنبھالنا شروع نہیں کی تھی اور اماں کہا کرتی تھیں کہ ا یک بار اسے گردن سنبھال لینے دو پھر اس کی دیکھ بھال کرنا کچھ آسان ہو جائے گی ۔۔۔ پھر تم امتحان کی تیاری کر لینا اور امتحان دے دینا۔ پھر اسی طرح کے کئی جملے سننے کو ملے ۔ ایک بار بس یہ چلنا شروع ہو جائے ۔۔۔بس ایک بار اس کی پوٹی ٹریننگ ہو جائے۔۔ ارے بس ایک بار اس کی سکو لنگ شروع ہو جائے۔۔۔ بس ایک بار یہ اپنی کنگھی خود سے کرنا سیکھ جائے ۔ اسے اپنا بیگ بنانا آ جائے پھر تم اس کی طرف سے تھوڑا بہت بے فکر ہو سکتی ہو ۔
 لیکن ایسا نہیں ہے۔۔ آج اللہ کے فضل سے وہ میرے سامنے سٹیج پر کھڑا اپنی ڈگری وصول کر رہا ہے ۔۔۔ آج وہ اپنے بہت اہم فیصلے خود کر سکتا ہے  وہ تو ایک بچے سے ایک عاقل بالغ شخص بن چکا ہے لیکن میں آج بھی اس کے لے فکرمند ہوںؒ کہ میں جو ایک ماں بن گئی تو اس مرحلے سے آگے نہیں نکل سکتی۔۔ کہ شائد اس سے
 آ گے کوئی مرحلہ ہے ہی نہیںاس سے آگے کوئی دوڑ ہے ہی نہیں ۔ اس سے مشکل کوئی امتحان ہے ہی نہیں بس جب میں ماں بن گئی تو اپنی زندگی کی دوڑ کو کچھ دیر کے لئے بریک لگا دینا ہوتی ہے۔۔ بعض اوقات یہ بریک بہت لمبی ہو جاتی ہے۔۔۔ اکثر یہ بریک ایک عمر پر محیط ہوتی ہے۔۔۔ پھر کبھی مڑ کر گرد سے اٹے پرانے فوٹو فریمز کی طرح اپنی ساکت ہوتی زندگی کی دوڑ کو دور سے دیکھ لیتے ہیں ۔۔۔ اولاد کی موجودگی میں ہم بھاگتے بھاگتے اپنی ریس سے باہر نکل جاتے ہیں۔۔۔ خود کو withdraw کر لیتے ہیں اور اپنے مدار کے گرد گھومتی اپنی ا ولاد کا ناظر بن کر سٹیڈیم میں بیٹھے پر شوق اور نہائت مخلص تماشائی کی طرح اس کی حوصلہ افزائی کے لئےے تالی بجانے لگتے ہیں ۔۔ ایسے میںاپنے لئے کسی کی بجائی گئی تالی کو سننے کی خواہش ہی ختم ہو جاتی ہے۔

ای پیپر دی نیشن

عالمی یوم جمہوریت اور پاکستان 

جمہوریت آزاد،مضبوط اور خوشحال وفاقی ریاست کی ضمانت ہے۔جمہوریت عوامی خواہشات کے مطابق نظام ریاست کی تشکیل کا نظام ہے۔ یہ ...