باز گشت…طارق محمود مرزا ،آسٹریلیا
tariqmmirza@hotmail.com
یہ 2000 ءکی بات ہے سڈنی میں اولمپک گیمز کی گہما گہمی بام عروج پر تھی کیونکہ دنیا بھر سے تیس لاکھ سے زائد کھلاڑی اور تماشائی سڈنی میں موجود تھے۔ مرکزی شہر کی گلیاں غیر ملکیوں سے بھری نظر آتی تھیں شہر کے اسی مرکزی علاقے میں ان دنوں میرا سٹور تھا جہاں اکثر مقامی گاہکوں کے ساتھ غیر ملکی بھی نظر آتے۔ انہی میں سے ایک غیر ملکی سے میں نے سوال کیا ''آپ کا کس ملک سے تعلق ہے''اس نے بتایا'' ہالینڈ سے''آپ تماشائی ہیں یا کھلاڑی '' اس نے جواب دیا ''میں کھلاڑی ہوں ''میں نے پوچھا'' کون سی گیم کھیلتے ہیں'' کہنے لگا'' میں فیلڈ ہاکی کھیلتا ہوں'' میرا انٹرویو جاری تھا ''آپ کس پوزیشن پر کھیلتے ہیں؟ نوجوان کا جواب تھا ''میں گول کیپر ہوں'' ہاکی سے مجھے خاصی دلچسپی ہے اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ سکول کے دور میں کھیلی ہے ویسے بھی ہماری نوجوانی کے دور میں یہ کرکٹ سے زیادہ مقبول تھی۔ دوسری وجہ یہ تھی سڈنی اولمپک کھیلنے والی پاکستانی ٹیم اور خاص طور اس کے کپتان احمد عالم اور کامران اشرف سے میری دوستی تھی۔ ہم ایک ہی فلائٹ سے پاکستان سے آسٹریلیا آئے تھے اور سڈنی میں ایک ماہ کے قیام کے دوران ہماری ملاقاتیںہوتی رہتیں۔ اس لیے ڈچ کھلاڑی سے میں یہ سوالات پوچھ رہا تھا۔میرا اگلا سوال خاصادلچسپ تھا'' بحیثیت گول کیپر آپ کو بین الاقوامی کھلاڑیوں میں سب سے خطرناک کھلاڑی کون سا محسوس ہوتا ہے'' اس نے بلا توّقف جواب دیا '' پاکستانی کھلاڑی سہیل عباس، اس سے تمام ٹیموں کے گول کیپر ڈرتے ہیں کیونکہ اس کی پنالٹی کارنر ہٹ روکنا بہت مشکل ہے۔'' واضح رہے کہ اس وقت تک میں نے ڈچ کھلاڑی کو یہ نہیں بتایا تھا کہ میرا تعلق پاکستان سے ہے۔میری ریسرچ کے مطابق اس ڈچ گول کیپر کانام Augustinus تھا دلچسپ بات یہ ہے متذکرہ اولمپک مقابلوں میں اسی کی ٹیم ہالینڈ نے اوّل آ کر گولڈ میڈل جیتا تھا۔وہ ماناہوا گول کیپر تھا۔ اس نے پاکستانی کھللاڑی سہیل عباس کو جتنا خطرناک گول سکورر قرار دیا تھا وہ سہیل عباس کی ناقابل فراموش صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت تھا کیونکہ مخالف ٹیم کا پلیئر اور وہ بھی گول کیپر اس امر کا برملا اعتراف کر رہا تھا کہ دنیا کی بہترین ٹیموں کے بہترین کھلاڑیوں میں سب سے زیادہ خطرناک گول سکورر اور پلنٹی کارنر سپیشلسٹ پاکستان کا مایہ ناز کھلاڑی سہیل عباس تھا۔یہ 2000 ءکا ذکر ہے جب سہیل عباس کے کیریئر کی ابتدا تھی آنے والے برسوں میں سہیل عباس نے دنیائے ہاکی میں ایسا لوہا جمایا کہ ان کے نام کے ڈنکے اب بھی بج رہے ہیں اور ان کے بنائے ہوئے ریکارڈ ناقابل شکست ہیں انہوں نے نہ صرف پاکستان کے لیے سب سے زیادہ گول (348)سکور کیے بلکہ بے شمار میچ جتوائے۔جس میں 21 ہیٹرک بھی شامل ہیں یہ کارنامہ انہوں نے 315 میچز میں انجام دیا۔ پاکستان کے دوسرے نمبر پر سب سے زیادہ گول سکور کرنے والے پلیئر حسن سردار کے 150 گول ہیں۔اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ سہیل عباس نے اپنے کیریئر میں کتنی شاندار اور ناقابل فراموش کارکردگی کا مظاہرہ کیا لیکن بدقسمتی سے اتنے بڑے کھلاڑی کو پاکستان میں وہ پذیرائی حاصل نہیں ہوسکی جو کرکٹ کے صرف چند میچ کھیلنے والے کھلاڑی کو حاصل ہو جاتی ہے۔ اپنے اس ہیرو کے کارناموں کو یاد رکھنا تو درکناراکثر پاکستانی اسے پہچانتے تک نہیں۔اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ پاکستان میں ہاکی اب اتنی مقبول کھیل نہیں رہی لیکن اہم وجہ ہمارے ذرائع ابلاغ اور حکومتی اداروں کی بے حسی ہے ورنہ دنیا بھر میں ملک کا نام روشن کرنے والے اور کامیابی کے اتنے جھنڈے گاڑنے والے کو یوں آسانی سے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ جس طرح قومی ہیرو مختلف شعبہِ حیات میں اپنے کار ہائے نمایاں سے قوم و ملک کو سر بلند کرتے ہیں اسی طرح ریاست اور عوام کا یہ فرض ہے کہ اپنے ان ہیروز کو نہ صرف محبت سے یاد رکھیں بلکہ انہیں ہر اعزاز سے سرفراز کر کے خود کو زندہ قوم ثابت کریں۔ کیونکہ یہ ہیروز قوم کے روشن چہرے ہیں۔ملک انہی سے ہی جانے اور پہچانے جاتے ہیں ورنہ سنگ و خشت کی بلند و بالا عمارتیں اور شاہرائیں کسی ملک کی پہچان نہیں ہوتیں۔ جس ملک میں اپنے ہیروز کی قدر نہیں وہ اقوام عالم میں اپنی شناخت قائم رکھنے اور بلند مقام حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔ آسٹریلیا میں رہ کر میں نے ہمیشہ نوٹ کیا کہ یہاں کھلاڑیوں فنکاروں اور دیگر شعبہ جات کے کامیاب اور معروف شخصیات کی بے حد پذیرائی کی جاتی ہے۔ یہ پذیرائی ہر سطح پر اور غیر مشروط ہوتی ہے۔ عوام خوش دلی سے اپنے ہیروز کو سراہتے ہیں اور ان کے خلاف کسی قسم کی ہرزہ سرائی برداشت نہیں کرتے۔ حتیٰ کہ ایسے کھلاڑی جن کے کیریئر کے دوران الزامات بھی سامنے آئے جیسے شین وان اور مارک وا، جن پر دوران میچ بکیز سے پیسہ لینے اور معلومات فراہم کرنے کا الزام ثابت ہوا اور انہیں پاپندی اور جرمانے کا سامنا کرنا پڑا لیکن بعد ازاں ان کو دوبارہ کھیلنے کا موقع دیا گیا اور اب ہر سطح پر ان کی ویسے ہی پذیرائی ہے۔ انہیں تمام اعزازات سے نوازا گیا شین وارن سے متعلق بے شمار فلمیں اور یادگاریں بنائی گئیں۔ دور کیوں جائیں خود ہمارے پڑوس ہندوستان میں ان کے مختلف مشہور کھلاڑیوں کی فلمیں بن چکی ہیں ان کی یادگاریں بنائی جا رہی ہیں اور انہیں ایسے اعزازات سے نوازا جا رہا ہے کہ ان کی نسلیں بھی بیٹھ کر کھا سکتی ہیں۔ترکی میں ارتغل غازی، عثمان غازی اور دیگر سلاطین کے متعلق فلمیں اور ڈرامے اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ہم پاکستان میں بیٹھ کر یہ ڈرامے اور فلمیں شوق سے دیکھتے ہیں لیکن اپنے قومی ہیروز کے متعلق ایسی فلمیں ڈرامے بنانے کے متعلق نہیں سوچتے۔ قومی مشاہیر قوم کے لیے باعث افتخار بھی ہوتے ہیں اور قومی اتحاد کے مظہر بھی ہوتے ہیں لیکن ہم بدقسمتی سے انھیں بھی متنازعہ بنا دیتے ہیں۔ بانی پاکستان حضرت قائد اعظم ، مصوّر پاکستان حضرت علامہ اقبال، ڈاکٹر قدیر خان سمیت قومی ہیروز کو بھی خواہ مخواہ ہدف تنقید بنا کر ان کا چہرہ نہیں اپنا قومی تشخص مسخ کرتے ہیں۔ جہاں دشمن بانی پاکستان حضرت قائد اعظم کو تقسیم ہند کا ذمہ دار قرار دے کر موردِ الزام ٹھیراتے ہیں وہاں کئی اپنے بھی ان کے ہم نوا نظر آتے ہیں جو قابلِ افسوس ہے۔ اگر سہیل عباس کسی اور ملک میں ہوتے تو ان کی زندگی اور خدمات پر فلمیں بنائی جاتی کتابیں لکھی جاتیں انہیں بڑے سے بڑے ایوارڈ سے نوازا جاتا اور وہ صحیح معنوں میں قوم کے ہیرو سمجھے جاتے۔اسی طرح ارشد ندیم،جہانگیر خان، عمران خان،ڈاکٹر قدیر خان، عارفہ کریم، ڈاکٹر اسرار احمد،مستنصر حسین تارڑ، فراز، فیض وسیم اکرم، وقار یونس، یونس خان، محمد یوسف، سمیع اللہ، جان شیر خان، نصرت فتح علی خان، مہدی حسن، نور جہاں اور بے شمار دوسرے عالم ، شاعر ادیب، فن کار اور ہیروز جنہوں نے پاکستان کا نام روشن کیا وہ بلا کم و کاست ہماری عزت افزائی کے ہر لحاظ سے مستحق ہیں۔زندہ اور منظم اقوام اپنے ہیروز کے حوالے سے مشترکہ لائحہ عمل اور یکساں خیالات وجذبات رکھتی ہیں وہ اپنے ہیروز کو متنازعہ نہیں ہونے دیتیں کیونکہ قوم کو متحد رکھنے کے لیے جہاں کچھ قوانین و ضوابط درکار ہیں وہاں شہدا، مشاہیر اور ہیروز بھی نمایاں کردار ادا کرتے ہیں۔پوری قوم ان کے پیچھے سیسہ پلائی دیوار کی طرح کھڑی ہوتی ہے۔یوں وہ متحد، فعال اور منظم قوم نظر آتی ہے۔