بارش کے باعث کراچی ائیر پورٹ کی چھت ٹپکنے لگی۔
کراچی ایک انٹرنیشنل شہر اور پاکستان کا تجارتی حب ہے۔ اسے میٹرو پولیٹن شہر کا اعزاز بھی حاصل ہے اور جدید شہر کا بھی۔ اس کی ترقی کے دعوے ہر حکومت کرتی رہی ہے۔ پیرس بنانے کے چکر میں سچ کہیں تو کراچی کراچی ہی نہ رہا۔ سڑکیں ، گلیاں کھنڈر بن چکی ہیں، جن پر سفر کر کے کوئی بھی شخص گردن اور کمر کے درد سے محفوظ نہیں رہ سکتا۔ چلیں یہ تو عام آدمی کے مسائل ہیں۔ بارش کے دنوں میں تو خاص طور پر کیا سڑک کیا گلی، سب میں تفریق ختم ہو جاتی ہے۔ یہ ندی نالوں کا منظر پیش کرتی ہیں۔ دوسری طرف پوش علاقے بھی اس موقع پر لیاری اور لالو کھیت بن جاتے ہیں۔ یوں
تیری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے
کا فلسفہ سمجھ میں آنے لگتا ہے۔ ان سب سے ہٹ کر کراچی ایئر پورٹ کا بھی تذکرہ سن لیں۔ یہ ایک جدید انٹرنیشنل ہوائی اڈہ ہے۔ جہاں دنیا بھر سے روزانہ درجنوں پروازیں آتی اورجاتی ہیں مگر ستیاناس ہو اس ستمگر بارش کا جو نہ اپنا دیکھتی ہے نہ بیگانہ، جدید دیکھتی ہے نہ قدیم۔ ہر جگہ اس کی تیز بوچھاڑ وحشت کا نقشہ پیش کرتی ہے۔ گزشتہ دو روز سے جاری بارش نے اس جدید ایئر پورٹ کو بھی نہ بخشا۔ اس کی ناقص تعمیر کا پول بھی کھول دیا۔ بارش کے پانی سے چھت تو یوں سمجھ لیں چھاننی بن گئی۔ جگہ جگہ سے ٹپکنے لگی۔ یوں ایئر پورٹ کے اندر بیٹھنے والوں نے بھی ”رم جھم رم جھم پڑے پھوار“ کا مزہ لیا۔ بس بد ذوقی کا مظاہرہ صفائی کرنے والے عملہ نے کیا کہ جگہ جگہ سے ٹپکنے والی جگہوں پر بالٹیاں رکھ دیں تاکہ پانی نہ پھیلے جو صاحب ذوق لوگوں کی نگاہوں پر بھاری پڑ رہی تھیں۔ پاکستانیوں کی تو خیر ہے وہ ایسے مناظر کے عادی ہیں مگر یہ جو غیر ملکی وہاں آتے جاتے ہیں ٹھہرتے ہیں، وہ کیا سوچتے ہوں گے ہمارے بارے میں۔ ہوائی اڈے کسی بھی ملک کا چہرہ ہوتے ہیں۔ کیونکہ آنے والے مسافر وہاں آ کر اترتے ہیں اور یہ سب کچھ دیکھ کر جو تاثر قائم ہوتا ہے وہ تادیر ختم نہیں ہوتا۔
نان کسٹم پیڈ گاڑیوں پر ٹیکس لے کر کلئیرنیس دینے کی خبر غلط ہے۔ ترجمان۔
نان کسٹم پیڈ لگڑری گاڑیوں کے حوالے سے بلوچستان اور خیبر پی کے خود کفیل ہیں جہاں سینکڑوں نہیں ہزاروں ایسی گاڑیاں صرف بارڈر ایریاز میں گاڑیوں کے جمعہ بازار ہیں کھڑی ہیں....جہاں کروڑوں کی گاڑی صرف چند لاکھ میں باآسانی مل جاتی ہے۔ کیا ان دونوں صوبوں میں ایسی نان کسٹم پیڈ گاڑیاں کھلے عام سڑکوں پر دندناتی پھرتی ہیں۔ نہ کسٹم والے روکتے ہیں نہ ایف آئی اے والے۔ اور نہ مقامی انتظامیہ۔ کسی میں اتنی ہمت نہیں کہ انہیں روک سکے یا گاڑی والوں سے کاغذات طلب کر سکے کیوں کہ اس کا وہاں رواج نہیں کیونکہ اتنی مہنگی گاڑیوں میں بیٹھنے والوں کو روک کر چیکنگ کوئی آسان کام نہیں۔ اگر کسی نے ایسا کرنے کی ہمت کی تو انہیں سرعام گاڑی تلے کچل کر یا گولیوں کا نشانہ بنا کر اس جرات کی سزا دے دی جاتی ہے۔ عرف عام میں ان گاڑیوں کو لوگ ”کابلی گاڑیاں“ کہتے ہیں جو افغانستان کے راستے پاکستان لائی جاتی ہیں۔ یہاں تک کیسے لائی جاتی ہیں۔ یہ بھی الف لیلوی کہانی ہے۔ سب جانتے ہیں سرحدی فورسز اور اس سے وابستہ ادارے کے ملازمین کو بھاری رشوت دے کر راضی رکھا جاتا ہے۔ اسی لیے دونوں صوبوں میں یہ گاڑیاں اپنے مالکان کی امارت ظاہر کرتی پھرتی ہیں۔ اب افواہ یہ شاید جان بوجھ کر پھیلائی جا رہی کہ انہیں معمولی ٹیکس ادا کر کے کلیئرنس دی جا رہی ہے۔ اس سے کچھ ہو یا نہ ہو ان چور بازار گاڑیوں کی قیمتوں میں خاطر خواہ اضافہ ہو جائے گا اور بیٹھے بٹھائے ھینگ لگے نہ پھٹکڑی رنگ بھی چوکھا آئے“ کے مصداق یہ کروڑوں روپے منافع کمائیں گے مگر کسٹم اور ایکسائز والوں نے یہ کہا کہ ان کے غبارے سے ہوا نکال دی ہے کہ ایسی کوئی تجویز حکومت کے زیر غور نہیں۔ یوں اب اس خبر پر شادیانے بجانے والے ماتمی دھن والی شہنائی بجا رہے ہیں۔
بلوچستان میں آپریشن کی ضرورت نہیں دہشت گرد ایک ایس ایچ او کی مار ہیں۔ وزیر داخلہ۔
کاش ایسا ممکن ہوتا۔ اگر ایسی ہی بات ہے تو پھر کسی ایسے ایس ایچ او کو تلاش کریں جو یہ کوہ گراں اٹھا سکے۔ ایسا ایس ایچ او تلاش کرنا ریت کے صحرا میں سوئی تلاش کرنے کے برابر ہے۔ شاید وزیر داخلہ نے یہ بات کوئٹہ میں جذبات سے مغلوب ہو کر کہہ دی ہو گی۔ اگر وہ سنجیدہ ہیں تو پھر ایک ایسا ہی ایچ او پہلے تلاش کر کے ٹریننگ یا امتحان کے طور پر کچے کے علاقے میں ڈاکوﺅں کی سرکوبی کے لیے بھیجا جائے اگر وہ کامیاب ہوتا ہے تو پھر اسے بلوچستان میں دہشت گردوں کی سرکوبی کے لیے روانہ کیا جائے۔ یاد رکھیں اس کے ساتھ اس کے اہلکار بھی ایسے ہونے چاہیئں جیسا وہ خود وہ سر پھرا ہو۔ موت سے بے خوف ، دشمنوں کے لیے خوف کا نشان۔ مگر ”ایسا کہاں سے لائیں کہ تجھ سا کہیں جسے۔“ کچے کے ڈاکو فرماتے ہیں کہ یہ اسلحہ ہمیں صرف اسلحہ سمگلروں سے ہی نہیں اپنے بااثر سرپرستوں کے علاوہ پولیس والوں کی مہربانیوں کے طفیل آرام سے کچے میں ہی مل جاتا ہے۔ بس ذرا قیمت زیادہ وصول کی جاتی ہے۔ مگر کوئی بات نہیں۔ ایسا پکا سودا اور بروقت مال کی سپلائی کوئی اور کون کہاں کر سکتا ہے۔ اس کے برعکس بلوچستان کے گمراہ دہشت گردوں کو تو اور بھی لکھے ذرائع سے اسلحہ اور 10 پیسہ دل کھول کر مل رہا ہے۔ افغانستان میں بھارت کے کارندے تربیتی کیمپ بھی چلا رہے ہیں۔ انہیں سامان پنچانے کے ساتھ بھارت اور بیرون ملک تربیت بھی دی جاتی ہے۔ ان کے خفیہ اکاﺅنٹس میں پیسہ بھی آتا ہے۔ یہ جو لاپتہ کے نام پر آنسو بہاتے ہیں اس کے پیچھے اسی مالی مفاد کا ہاتھ ہوتا ہے۔ تاہم جبری گمشدگی کا خاتمہ ضروری ہے۔ اگر کوئی مجرم ہے تو اسے عدالتوں میں لا کر قانون کے مطابق سزا دی جائے تاکہ اس کے گھر والوں اور دوسرے لوگوں کو بھی پتہ چلے کہ اس نے کیا کیا ہے۔ ورنہ لاپتہ افراد کے گھر والے تو روز جیتے اور مرتے ہیں۔ مگر ان کے نام کی آڑ میں بہت سے سیاسی بونے اپنا قد کاٹھ اور اثاثے بڑھاتے ہیں۔
روپوش رہنما ڈریں نہیں باہر نکلیں گرفتاریاں دیں ،بانی پی ٹی آئی۔
کپتان نے قید کے دوران بالاخر سخت فیصلے کرنے کی ٹھان لی ہے اور گھبرا گھبرا کر چلنے والے سہمے ہوئے اپنی پارٹی کے چھپے ہوئے رہنماﺅں کو اپنے اپنے ٹھکانوں سے باہر نکل کر عوام کے سامنے آنے کا حکم دیدیا ہے۔ مگر کیا گرفتاریوں کے ڈر سے یہ روپوش لیڈر اب اپنی بلوں سے باہر آ کر مردانہ وار گرفتاریاں دیں گے۔ یہ ایک کافی مہنگا اور دل گردے والا سودا ہے۔ پہلے کی بات اور تھی حالات اس نہج پر نہیں پہنچے تھے۔ اب تو جس کو ہو جان و دل عزیز تیری گلی جائے کیوں۔ جو لوگ پہلے ہی بند گلی میں پھنسے ہیں وہ سامنے آنے کی جرات یا حماقت کر پائیں گے یا نہیں۔ ویسے حکم تو مرشد کا ہے۔ اس پر دل و جان سے عمل کرنا پڑتا ہے۔ کارکن تو نکلتے ہی ہیں۔ اب لیڈروں کی باری ہے۔ بانی نے بھی کہا ہے کہ اب ڈرنے کا وقت نہیں (شاید مرنے کا ہے کہنا بھول گئے) ویسے بھی سیاست میں جو ڈر گیا وہ مر گیا۔ اب وہ بے چارے سہولت کار بھی رگڑے میں نہ آ جائیں جنہوں نے انہیں پناہ دی تھی۔ چلو اس طرح جو الزام لگاتے پھرتے تھے کہ یہ سورما افغانستان میں جا چھپے ہیں۔ ان کے سامنے آنے سے ان کے پراپیگنڈے سے بھی ہوا نکل جائے گی۔ جو جہاں ہے باہر آ جائے گا۔ عجب بات ہے بانی کہتے تھے میں نہیں بلاتا یا کہتا۔ رہنما اور کارکن عوام کے ساتھ ازخود میرے لیے باہر نکلتے ہیں اس لیے میں ان کی توڑ پھوڑ سے بری الزمہ ہوں۔ اب روپوش رہنما بھی سامنے آ کر مخالفین سے دو دو ہاتھ کرنے کی تیاری کریں یہی ان کے مرشد کا حکم ہے۔ جس کی حکم عدولی ممکن نہیں۔ ان کا ہر حکم حرف آخر سمجھا جاتا ہے جو نہ سمجھے وہ راندہ درگاہ قرار پاتا ہے۔ انہوں نے اپنی قید کی حالت بھی بیان کر کے جذبات کو مہمیز تو لگا دی ہے۔ لگتا ہے انہیں فیض صاحب کی شاعری سے دلچسپی نہیں ورنہ کہہ سکتے تھے۔ ”مقام فیض کوئی راہ میں جچا ہی نہیں
جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے