اگست وہ مہینہ ہے جب ہم پورے جوش و خروش سے یوم آزادی مناتے ہیں اور خوشی کے ساتھ ساتھ خود مختاری کا احساس اجاگر کرتے ہیں۔ یہ میرا اگست کا آخری کالم ہے، جس کا مقصد پاکستان کے قیام کے بعد کے ابتدائی سالوں کے متعلق تاریخی بصیرت فراہم کرنا ہے۔ میرا ماننا ہے کہ نئی نسلیں اہم تاریخی واقعات کا محض محدود فہم رکھتی ہیں۔ یہ ضروری ہے کہ ہم اپنی تاریخ کو یاد رکھیں تاکہ اس سے سبق حاصل کر سکیں اور ماضی کی غلطیوں کو دہرانے سے بچ سکیں۔
1947ءمیں قیامِ پاکستان کے فوراً بعد ہی، یہ نوزائیدہ ریاست تقسیم کے اثرات سنبھالنے میں مصروف ہو گئی۔ بڑے پیمانے پر ہجرت، فرقہ وارانہ تشدد اور لاکھوں پناہ گزینوں کی آبادکاری کا بوجھ نوخیز ریاست پر بے پناہ دباﺅ ڈال رہا تھا۔ محمد علی جناح اور آل انڈیا مسلم لیگ کے نظریہ سے پیدا ہونے والا پاکستان مسلمانوں اور دیگر مذاہب کے لیے ایک الگ ریاست کے طور پر تصور کیا گیا تھا، جو ہندو اکثریتی ہندوستان کے غلبے سے آزاد ہو۔ ”پاکستان“ کا مطلب ”پاک لوگوں کی سرزمین“ ہے، اور یہ اس امید کی عکاسی کرتا تھا کہ لاکھوں لوگوں کو ایسا وطن ملے گا جہاں وہ اپنی ثقافت اور مذہب کو آزادانہ طور پر ادا کر سکیں۔ تاہم، یہ خواب ابتدائی طور پر ہی بہت بڑی مشکلات سے دوچار ہوا۔ 1948ءمیں قائداعظم محمد علی جناح کی وفات کے بعد قیادت کا خلا پیدا ہوا جسے پر کرنا مشکل ثابت ہوا۔ ان کے جانشین لیاقت علی خان کو 1951ءمیں شہیدکر دیا گیا، جس نے عدم استحکام کو مزید بڑھاوا دیا۔
پاکستان کا پہلا آئین 1956ءمیں نافذ کیا گیا، جو ملک کے قیام کے تقریباً دس سال بعد تھا، اور اس کی وجہ نازک سیاسی حالات تھے۔ آئین کا مقصد اسلامی اصولوں کو جمہوری قدروں کے ساتھ ہم آہنگ کرنا تھا، مگر مختلف تشریحات کی بنا پر تنازعات جنم لیتے رہے۔ ان تمام کوششوں کے باوجود، آئینی تشریحات میں فرق کی وجہ سے عدم استحکام جاری رہا اور مزید تنازعات پیدا ہوئے۔ فوج نے اس انتشار کو قومی سلامتی کے لیے خطرہ سمجھا اور جنرل ایوب خان نے 1958ءمیں اقتدار سنبھالا، یہ دعویٰ کرتے ہوئے کہ یہ امن و امان کی بحالی اور بدعنوانی کے خاتمے کے لیے ضروری تھا۔ اس معاملے کی تمام تر ذمہ داری جنرل ایوب خان کی ذاتی خواہشات پر نہیں ڈالی جا سکتی، بلکہ یہ سیاستدانوں، بیوروکریٹس اور خاص طور پر اسکندر مرزا کی مشترکہ کوشش تھی۔
ہمیں اس بات پر بھی غور کرنا چاہیے کہ لیاقت علی خان نے اسکندر مرزا، جو میر جعفر کے رشتہ دار تھے، کے ساتھ قریبی تعلقات کیوں قائم کیے؟ مزید برآں، ہمیں اسکندر مرزا اور لیاقت علی خان کے کردار پر بھی غور کرنا چاہیے جنہوں نے جنرل ایوب خان کو چیف آف آرمی اسٹاف منتخب کیا۔ انہیں 1951ءمیں اس وقت کے وزیر اعظم لیاقت علی خان نے پاکستان آرمی کے کمانڈر ان چیف کے طور پر مقرر کیا، اور یہ تقرری کئی سینئر افسران پر متنازعہ ترقی کے طور پر سامنے آئی۔ یہ حیران کن نہیں کہ اسکندر مرزا کو 1958ءمیں مارشل لاءلگانے کے وقت ایوب خان کی حمایت حاصل تھی، کیونکہ ایوب خان کی کمانڈر ان چیف کے طور پر تقرری میں ان کا بڑا کردار تھا۔ تاہم، دو ہفتے بعد، ایوب خان نے اسکندر مرزا کو معزول کر دیا اور صدارت سنبھال لی۔ اسی سال انہوں نے آرمی چیف کا عہدہ جنرل موسیٰ خان کے حوالے کر دیا۔ اسکندر مرزا کو پاکستان میں دفن ہونے کی جگہ بھی نصیب نہ ہوئی اور انہیں ایران میں دفن کیا گیا۔
ایوب خان کے دورِ حکومت میں ابتدا میں خاص طور پر زرعی اصلاحات اور صنعتی ترقی کے ذریعے استحکام اور معاشی ترقی دیکھی گئی۔ مگر ان پالیسیوں کے فوائد یکساں طور پر تقسیم نہیں ہوئے، اور مغربی پاکستان، خصوصاً شہری علاقوں کو زیادہ فوائد حاصل ہوئے۔ مرکزی حکومت کی ناکامیوں نے ان مسائل کو مزید بڑھا دیا، جس سے مشرقی پاکستان میں خود مختاری کے مطالبات زور پکڑ گئے۔ اس دوران ایک اور اہم مسئلہ پاکستان کے ثقافتی اور لسانی تنوع کی نظراندازی تھی۔ 1962ءکے آئین نے صدارت میں مزید اختیارات مرکوز کر دیے، جس نے جمہوری اصولوں کو کمزور کیا اور عوام میں عدم اطمینان کو بڑھا دیا۔
فاطمہ جناح، جو ”مادر ملت“ کے طور پر جانی جاتی ہیں، پاکستان کی تاریخ میں ایک اہم شخصیت کے طور پر سامنے آئیں۔ 1965ءکے انتخابات میں ان کی بطور صدارتی امیدوار شرکت پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایک اہم لمحہ تھا۔ ان کی شخصیت کے باوجود، فاطمہ جناح کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ سیاسی ماحول ایوب خان کے حق میں زیادہ سازگار تھا، جنہوں نے ریاستی مشینری اور وسائل کا استعمال کرتے ہوئے اپنی طاقت کو مستحکم کیا۔ فاطمہ جناح کی مہم جمہوری اصولوں، شہری آزادیوں، اور سویلین حکومت کی بحالی کے حق میں تھی۔ ان کی تقریریں ان لوگوں کے دلوں میں گونجتی تھیں جو ایوب خان کے آمرانہ دور سے مایوس تھے۔
1965ءکے انتخابات میں فاطمہ جناح کی شکست ریاستی مداخلت، صنفی تعصب، اور انتخابی نظام کی خامیوں کا نتیجہ تھی۔ اگرچہ اس کے فوراً بعد آمرانہ حکومت کو تقویت ملی، لیکن ان کی مہم اور ان کے نظریات نے آئندہ نسلوں کو متاثر کیا اور پاکستان میں جمہوری اصلاحات کی راہ ہموار کی۔ فاطمہ جناح کی شکست سے عوام میں مایوسی پھیل گئی، جنہوں نے جمہوری اصلاحات کی امیدیں باندھ رکھی تھیں۔ ان کی شکست کے باوجود، فاطمہ جناح کی جمہوریت اور شہری حقوق کی علمبردار کے طور پر میراث برقرار رہی۔ انہوں نے اپنے بھائی کے اصولوں کی حمایت جاری رکھی۔ 1965ءکے انتخابات نے انتخابی اصلاحات اور زیادہ شفاف سیاسی نظام کی ضرورت کو اجاگر کیا۔ میرا، اور بہت سے دیگر لوگوں کا ماننا ہے کہ اگر فاطمہ جناح جیت جاتیں تو پاکستان اور بھارت 1965ء میں کشمیر کے تنازعہ پر مکمل جنگ سے بچ سکتے تھے۔ اس تنازعہ کے اثرات وسیع پیمانے پر محسوس کیے گئے۔ جنگ نے پاکستان کی معیشت پر دباﺅ ڈالا اور اس کے نظام کی کمزوریوں کو بے نقاب کیا۔ اس نے ملک کے اندر گہرے مسائل کو بھی اجاگر کیا، جس سے علاقائی اور سیاسی تناﺅ مزید بڑھ گیا۔
پاکستان کی تاریخ کا ابتدائی دور سیاسی اشرافیہ اور بیوروکریٹس کے درمیان شدید طاقت کی جدوجہد سے منسوب تھا، جس کی وجہ سے قیادت کی مسلسل تبدیلیاں آئیں کیونکہ کوئی ایک سیاست دان یا جماعت مستقل حکومت قائم کرنے میں ناکام رہی۔ وسیع پیمانے پر بدعنوانی اور اقربا پروری نے انتظامیہ پر عوامی اعتماد کو نمایاں طور پر کم کر دیا۔ طاقت کے حصول پر توجہ نے تعلیم، صحت اور بنیادی ڈھانچے کی ترقی جیسے اہم مسائل سے توجہ ہٹا دی۔ 1947ء سے 1965ءتک کا دور پاکستان کی تاریخ کا ایک پیچیدہ اور ہنگامہ خیز باب تھا۔ ”پاک سرزمین“ بننے کی امیدیں سیاسی عدم استحکام اور علاقائی عدم مساوات سے ماند پڑ گئیں۔ ثقافتی اور لسانی تنوع کی نظراندازی، ساتھ ہی طاقت کی کشمکش اور بدعنوانی نے ملک کو اپنے اصل مقاصد سے دور کر دیا۔ ان مسائل نے آگے چل کر بھی پاکستان کی سیاسی اور سماجی تاریخ پر گہرے اثرات ڈالے جو ہم آج بھی بھگت رہے ہیں۔