ایک گھر میں ”3افراد“ نہیں سنبھالے جاتے اور وہاں؟” گھر چاہے چھوٹا ہو یا بڑا۔ افراد گنجائش سے زیادہ ہو جائیں یا کم بہرحال سنبھالنا۔ نبھانا انتہائی حد کی ذِمہ داری کا متقاضی ہوتا ہے۔ اور جب بات آجائے ”صفائی“ پر تو سب سے بڑا دشوار چیلنج اِس کے سوا کوئی اور دِکھائی نہیں دیتا۔ اور یہ تو راستے ہیں محبت کے۔ عقیدت کے۔ عشق کے۔ دلی جذبات کا آغاز ہے نہ ہی اختتام کی کوئی حد نظر آتی ہے۔ قافلے رواں دواں ہیں تعداد پر پابندی نہیں۔ سب گیم بلاوے کی ہے۔ حاضری کی منظوری کا نقارہ بج جائے تو بس سمجھ لو۔ بیڑہ پار ہوگیا۔ یہی اصل منظوری ہے۔ یہی ”پاسپورٹ“ یہی ”ویزا“۔ بقیہ سب دنیاوی احتیاجات ہیں۔ رسمی کارروائیاں ہیں۔ برا تو پہلے بھی معلوم ہوتا تھا۔ اب کی مرتبہ بھی کئی دفعہ مقررہ جگہ پر پہنچ کر واپس لوٹنا پڑا۔ ”عام آدمی“ کہاں برداشت کر سکتا ہے۔ دل میں کھٹک لگتی ہے، سوچ کا منفی تڑکا رنجش بڑھاتا ہے پر اِس مرتبہ جہاں بھی جگہ ملی شکر ادا کیا۔ رویے پر معافی مانگی۔ رکاوٹیں ہیں اور بے تحاشا ہیں۔
بسا اوقات تو غیر ضروری محسوس ہوتی رہیں پر حقیقت یہ ہے کہ آپ ”لازمی فرض“ کی ادائیگی سے آدھا گھنٹہ پہلے پہنچ جائیں تو دشواری نہیں۔ آپ واقعی اپنی پسندیدہ مرکز نگاہ و دل و جگر پر اپنے فرائض پوری دلجمعی۔ ذوق و شوق سے سر انجام دے سکتے ہیں۔ وقت کا درست تعین۔ وقت کا صحیح استعمال اور ساتھ میں بس تھوڑا سا صبر اس سر زمین پر جہاں بے پناہ مشقت ہے۔ وہاں قدم قدم پر آپ کے وجود۔ زبان۔ افعال کے امتحانات بہت کڑے ہیں بس تھوڑی سی برداشت۔ تھوڑی سی مسکراہٹ اور دل بہت زیادہ نہیں، بس میسر گنجائش سے کچھ بڑا کرنا پڑتا ہے۔
قارئین! بات ہے ”حجاز مقدس“ کی۔ اس جگہ کی جہاں چلے جاﺅ تو واپس آنے کو دل نہیں چاہتا۔ جتنا مرضی چلے جاﺅ بار بار جانے کو دل خواہش کرتا ہے کیونکہ یہ ہمارا ”روحانی مرکز“ ہے، ہماری نگاہوں اور دلوں کا سکون۔ ٹھنڈک ہے۔ ”24جولائی“ کو ”مدینہ منورہ“ روانگی تھی۔ ہوٹل پہنچنے کے فوری بعد تازہ وضو کر کے ”مسجد نبوی“ میں تھے۔ بس آنکھیں ”گنبد خضرائ“ پر اور ہاتھ ”اصل مالک“ کی طرف اٹھے ہوئے۔ پوری مسجد کے بیرونی حصہ تک چلتے اور دعائیں مانگتے رہے۔ بس قبولیت کی صدا سننے کے منتظر ہیں گناہ گار کان۔ یقینا قبولیت ہے کیونکہ وعدہ ہے حاضری۔ معافی۔ قبولیت کا۔ خواہش ہے کہ دوبارہ جائیں اور بھرپور وقت گزار کر آئیں۔ ڈیڑھ سال بعد گئے تو بہت خوشگوار تبدیلیاں وقوع پذیر ہوتے دیکھیں۔ ”مدینہ منورہ“ میں میوزیم کے پاس جدید ہوٹلز کی تعمیر کے علاوہ کشادہ سٹرکیں۔ ان پر لگے درخت۔ ہر جگہ سبزہ لگایا جارہا ہے یہ بہت خوش آئند موسمی حالات کے مطابق تازہ ہوا کے مثل ہے۔ نہایت نمایاں تبدیلی ہر دو ”حرمین شریفین“ میں دیکھنے کو ملی۔ دوران ڈیوٹی ”سکیورٹی سٹاف“ کا رویہ زائرین کے ساتھ انتہائی نرم۔ شفیق تھا۔ پہلے تو یہ حال تھا کہ راستہ بھی نہیں بتاتے تھے، بات کرنا تو کجا۔ مگر اب کی مرتبہ احترام سے رہنمائی کرتے اور ضروری معلومات بھی فراہم کرتے دکھائی دئیے۔ رش بہت تھا یوں محسوس ہوا کہ ”رمضان المبارک۔ حج“ سے بڑھ کر ہے۔
چونکہ حج مکمل ہوا تھا اوپر سے سکولز کی چھٹیاں اس لئے مقامی لوگ زیادہ تھے۔ ہر طرف بچے ہی بچے۔ زیادہ تر تو یہی محسوس ہوتا تھا کہ ہم پاکستانی اور مقامی وزٹ کو پکنک کے طور پر لے رہے ہیں۔ جب بھی کوئی واپس آتا تھا تو جگہ جگہ رکاوٹوں کو غیر ضروری قرار دیتا تھا۔ لوگ الٹی سیدھی بھی کہہ ڈالتے تھے ظاہر ہے جب آپ لاکھوں کا ٹکٹ لے کر، لاکھوں ہوٹل۔ کھانے پر خرچ کرتے ہیں تو خواہش تو یہی ہوتی ہے کہ مطلوبہ ، پسندیدہ جگہوں پر جانے میں آسانی رہے۔ کوئی خلل نہ پڑے۔
”سعودی حکام کو سلیوٹ“
کچھ وقت واقعی سب کچھ بلا ضروری معلوم ہوتا ہے پر قارئین جسقدر تندہی۔ صبر سے ”سعودی حکام“ نمازوں کے اوقات میں فرائض سر انجام دیتے ہیں سلیوٹ ہے ان کو۔ ہر جگہ لاکھوں کا مجمع، وہ بھی بے ترتیب (ہر ایک کی شاخ مختلف۔ مزاج مختلف۔ قومیت الگ) کو مسجد میں گنجائش کے مطابق داخل کرنا بہت نازک ذِمہ داری ہے۔ حساس معاملہ ہے۔ اگر وہ لوگ سختی نہ کریں (اب تو زیادہ سختی نہیں بلکہ الٹا لوگوں کی منتیں کر رہے ہوتے تھے کہ صف بناﺅ آگے جاﺅ۔ راستوں میں نہ بیٹھو) تو دھکم پیل ہو جائے، معلوم نہیں۔ یہ ہمیشہ دیکھا کہ لوگ شروع میں ہی بیٹھ جاتے ہیں۔ آگے جانے کی زحمت نہیں کرتے۔ سب سے زیادہ قصور ہمارا ہے کہ وقت پر پہنچنے کی بجائے لیٹ جاکر الٹا لوگوں پر سے پھلانگتے ہوئے درمیان میں پھنس کر دوسروں کے لیے بھی ”نماز“ کی ادائیگی مشکل بنا دیتے ہیں۔
”احترام ضروری ہے“۔
ہر ”زائر“ کو چاہیے کہ جب اسے ”مدینہ منورہ“ اور ”مکہ مکرمہ“ کی زیارت نصیب ہو تو وہ زبان کو شکوﺅں سے پاک کر لے۔ قدم قدم پر ٹھنڈا۔ گرم پانی۔ آرام دہ قالین۔ ٹھنڈے فرش۔ دھوپ سے بچاﺅ واسطے چھتریاں۔ پانی پھینکتے پنکھے۔ یہ کام کوئی آسان نہیں ہیں۔ ان سہولیات کی متواتر فراہمی بہت بڑے اخراجات کا حامل ہے یہ سب ”زائرین“ کے لیے سعودی حکومت نے اہتمام کر رکھا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ مساجد میں سونے۔ آرام کرنے کے لیے نہ جائیں۔ عبادت کریں۔ ذکر کریں۔ قرآن پڑھیں اور اگر ہوٹل قریب ہے تو واپس جا کر وقت کے مطابق آرام کر لیں۔ جن کے دور ہیں وہ بھی ”مساجد مبارکہ“ میں نہ لیٹیں۔ تبرکات۔ کھانے پینے کی اشیاءجب بانٹی جارہی ہوں تو کھینچا تانی نہ کریں۔ دوڑیں نہ لگائیں۔ پورے خاندان کی اشیاءکا تقاضا نہ کریں۔ پانی ضائع نہ کریں۔ قالینوں۔ فرش پر استعمال کردہ پلاسٹک بیگز۔ خالی گلاس وغیرہ وغیرہ نہ پھینکا کریں۔ احترام ضروری ہے وہاں کے قوانین کا کیونکہ قانون کے احترام کا حکم ہے۔ وہاں بیٹھ کر برائیاں کرنے سے بہترہے کہ آپ ”قرآن پاک پڑھیں۔ نوافل ادا کریں“ نہیں طاقت تو ہوٹل جا کر سوجائیں۔ برائی کرنے سے سو جانا بہتر ہے۔ چند قدم کے فاصلوں پر موجود ”بیت الخلا“ بہت بڑی سہولت ہے اس کو صاف رکھیں۔ گندگی نہ پھیلائیں۔
”2018“ کے بعد کرونا کے فوری بعد ”عمرہ“ کرنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ تب تقریباً دو کانیں۔ شاپنگ مراکز بند۔ بندہ پرندہ خال خال۔ دو ماہ بعد پھر جانے کی عزت نصیب ہوئی تو حالات یکسر مختلف تھے۔ دوماہ بعد اتنی جلدی ہر چیز کی قیمت بڑھ چکی تھی۔ ٹیکس کا نفاذ بھی وجہ تھا۔ اب کی مرتبہ تو معاشی تصویر ہمارے مطابق بہت ہی مشکل میں تھی۔ ہماری بد نصیبی کہ ”پاکستانی اور پاکستانی روپیہ“ دونوں ہی عزت۔ قدر گنوا چکے ہیں۔ جتنا بھی قیام رہا۔ ”دماغ سے جیب“ تک نگاہ اور ہاتھ نہیں ہٹتا۔ زائرین کثیر۔ دوکانوں خاص طور پر گولڈ جیولری اور پرفیوم عطریات پر اِکا دکا زائر۔ یقینا پوری دنیا ایک دشوار معاشی اتار چڑھاﺅ کا سامنا کر رہی ہے اور یہاں تو ترجیح اول فرائض کی ادائیگی۔ عبادات کی انجام دہی ہے پھر بھی دیکھا کہ ائر پورٹس پرلوگ سامان سے لدے پھندے کھڑے تھے۔ (جاری)
”مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ“
کچھ سال پہلے تک انتہائی مشکل سفر تھا۔ جب ”موٹرویز“ نئی بنی تھیں تب بھی سفر کیا۔ جب جگہ جگہ سے شاہرایں اکھڑ چکی تھیں تب بھی سفر کیا۔ اب انتہائی آرام دہ حالات میں ”موٹرویز“ دیکھیں۔ پہلے دشواری ہوتی تھی اتنے لمبے سفر کے دوران کوئی بہتر صفائی والا ٹوائلٹ ملتا ہی نہیں تھا اب خوبصورت ترین مساجد بمعہ وضو۔ جدید ٹوائلٹ بنا دی گئی ہیں۔ جہاں سے بھی گزرے۔ میدان علاقے۔ پہاڑوں کے اوپر مقیم آبادی۔ آسان ترین رسائی ہے۔ بہترین سٹرکیں نظر آئیں۔ ہر جگہ درخت لگائے گئے ہیں۔
”تیزی سے ترقی کرتا سعودی عرب“۔
سیاحت کے شعبہ کو ترجیح دی جا رہی ہے سنا ہے کہ ”غارحرائ“ تک جانے کے لیے ”کیبل کار“ کی تنصیب ہو رہی ہے ”بیئر رومہ“ (آب شفائ) کو عوام الناس کے لیے کھول دیا گیا ہے۔ ”بنی رحمت“ کے کھجور کے باغات کھول دئیے گئے ہیں جانے کا اتفاق نہیں ہوا واپس آنے کے بعد معلومات ملیں۔ زندگی رہی تو اگلی ”بابرکت۔ پر سعادت منظوری“ پر ضرور زیارت کریں گے۔ جتنی تیزی سے معاشی اصلاحات پر ”سعودی حکومت“ نے عمل کیا ہے وہ مثال ہے ان ممالک کے لیے جو اپنے وسائل پر بھروسہ نہیں کرتے۔ اپنے اللے تللے کنٹرول نہیں کرتے۔ قرض لیتے۔ ڈکار جاتے ہیں بدنصیبی ہے کہ ہم ہمیشہ ہر ترقی کرتے
ملک کے ماڈل کو (اس کے دورے کے دوران) اپنانے کا اعلان تو کرتے ہیں مگر عمل نہیں کرتے کیونکہ ہماری نیت ایسا نہیں کرنے دیتی جبکہ وسائل کی کمی نہیں۔ سرسبز زرعی زمین۔ قدرتی آبشاریں۔ بلند و بالا معدنی وسائل سے بھرے پہاڑ۔ گھڑی گھڑائی ارضی جنت نما علاقے۔ کونسی نعمت ہے جو یہاں موجود نہیں اِس کے باوجود۔ سب تنازعات سے ہٹ کر دیکھیں کہ آج سعودی نوجوانوں میں ”محمد بن سلمان“ انتہائی مقبول لیڈر ہے۔ بہت تبدیلی اِس مرتبہ دیکھی کہ تقریباً ہر کاروبار میں سعودی نوجوان نظر آیا۔ ”موبائل سمز“ کے تھوڑے تھوڑے فاصلے پر چلتے کیبن بھی سعودی نوجوان چلا رہے ہیں۔ وہ عرب جو کام کرنے میں عار سمجھتے تھے اب انتہائی معمولی مگر با عزت طریقہ سے چھوٹے موٹے کاروبار کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ”سعودی حکومت“ کی بہت بڑی کاوش شامل ہے اِس انقلابی تبدیلی میں۔ ائر پورٹس پر تعینات اہلکار بھی نرم مزاجی سے زائرین کو ہینڈل کرتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ کبھی کبھار لوگوں کے رویے سختی لے آتے ہیں ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ آنے والے سالوں میں ہم دیکھ رہے ہیں ”سعودی ویژن 2030ئ“ کو بہت جلد کامیاب تکمیل کی طرف جاتا ہوا۔ قوم کی ترقی۔ خوشحالی میں کلیدی کردار لیڈر شپ کا ہوتا ہے بہت جلد کامیابی کے ساتھ ”ولی عہد محمد بن سلمان“ نے سعودی معیشت کو کامیابی۔ ترقی کے راستے پر چڑھا دیا ہے۔ تیزی سے تعمیراتی منصوبے مکمل کیے جارہے ہیں۔ دستیاب سہولتوں کو زمانہ کے تقاضوں کے مطابق جدید آئی ٹی سے آراستہ کیا جا رہا ہے۔ ہوٹل میں دستی مینیو کارڈ کی بجائے ”ایپ“ موجود ہے۔ ہوٹلز اور شاپنگ مراکز میں کام کرتی خواتین کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ ہمارے ”دین حنیف“ میں تو ہر کِسی کو آزادی ہے معاش کی تلاش کی۔ زندگی کی آسانیاں ڈھونڈنے کی۔ ہاں صنف نازک پر کچھ حدود قیود ہیں تو باپردہ رہ کر کام کرنا زیادہ احسن ہے حفاظت بھی لازم دوسروں کی آنکھوں کی بے حرمتی سے بھی بچاﺅ۔ سعودی خواتین با پردہ رہ کر گاڑیاں بھی چلا رہی ہیں۔ کارخانے بھی اور دوکانوں پر بھی کام کرتی نظر آتی ہیں۔ نمایاں قابل تعریف اقدامات ہیں ”سعودی حکومت“ کے اپنے شہریوں کی بہبود۔ فلاح۔ روزگار کی آسان فراہمی کےلئے۔