صحافت ”گھر پھوک تماشا ہے “ جیسا فقرہ سنا تو بہت ہے مگر اس کا حقیقی عکس ملبوس توکل رفیق غوری کی زندگی کی کہانی پڑھنے کے بعد بہتر طور پر سمجھ آنے لگتا ہے پہلی نظر میں انہیں دیکھنے پر کسی فلاسفر کا گمان ہوتا تھا حالانکہ ان کا فلسفہ سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں تھا بلکہ وہ عقل منطق اور استدلال کے زیادہ قائل تھے۔وہ سر سے پاﺅں تک سچے کھرے مسلمان اور پاکستانی تھے۔
ابتدائی صحافتی زندگی کا آغاز روزنامہ عوام فیصل آباد، شہرہ آفاق چٹان سے کیا بعدازاں اپنے بل بوتے پر ہفت روزہ آوازخلق اورماہنامہ عورت راج سے گلوبل نیوز نیٹ ورک نیوز ایجنسی تک کا سفر طے کیا اور جی این این کی شہ سرخیاں صف اول کے اخبارات کی زینت بنیں۔ کئی دیگر تہلکہ خیز کارہائے نمایاں جی این این کی ناقابل فراموش کارکردگی میں شامل ہیں مزید بر آں روزنامہ نوائے وقت روزنامہ پاکستان اور روزنامہ جرات میں کالم نگاری کے ساتھ ساتھ روزنامہ اساس لشکر اور روزنامہ جرات کی ادارتی ذمہ داریاں بھی سنبھالیں۔
رفیق غوری مئی 1951 ءمیں چک نمبر 457 ناب جھلاراں تھانہ چک جھمرہ میں سکول ٹیچر ایم عبدالغنی غوری اور رسولاں بی بی کے گھر پیدا ہوئے۔ رفیق غوری کے والد انہیں بھی سکول ٹیچر بنانے کا ارادہ رکھتے تھے۔ اسی وجہ سے ٹیچنگ کورس کروایا گیا لیکن آخری امتحان سے پہلے ہی فیصل آباد کے مشہور روزنامہ عوام میں چک جھمرہ کی ڈائری لکھنے کا آغاز کیااور وہیں سے صحافت کا باقاعدہ آغاز ہوا۔بعد ازاں روزنامہ ملت کے لئے بھی کالم لکھتے رہے۔ رفیق غوری کے تین بیٹے اویس غوری وقاص غوری اور انس غوری ہیں جبکہ دو بیٹیاں رابعہ غوری اور فاطمہ غوری ہیں۔سب بچے اپنے اپنے اسلوب اور دلچسپی کے مطابق مختلف شعبہ ہائے زندگی سے منسلک ہیں اور اپنے والد محترم کی تعلیمات پراحسن طریقے سے عمل پیرا ہیں۔
روزنامہ چٹان میں ملازمت بارے رفیق غوری صاحب بتاتے ہیں کہ مسکین حجازی صاحب نے ان کا انٹرویو لیتے ہی ملازمت پر رکھ لیا جب چودھری صلاح الدین سے رابطہ ہوا تو انہوں نے بھی رفیق غوری کی بہت حوصلہ افزائی کی اور ان کی پہلی تحریر پر شاباش دی کیونکہ اس تحریر کے شائع ہونے کے بعد بہت سے لوگ رفیق غوری کے حق میں اور خلاف چٹان کے دفتر آ گئے تھے۔ چودھری صلاح الدین نے اس موقع پر کہا کہ ریاض شاہد کے بعد تم نے بڑی جرا¿ت مندی اور تحقیق سے لکھا ہے۔ 1984 ءتک یہاں کام کیا بعد ازاں ہفت روزہ آواز خلق کا ڈیکلریشن لیا۔ شروع میں کتابی سلسلے سے آغاز کیا۔چٹان سے نکل کر روزنامہ نوائے وقت میں لکھنے کا موقع ملا ان دنوں ڈاکٹر اسرار احمد رفیق باجوہ اور قاضی حسین احمد کے انٹرویوز رنگین ایڈیشن میں رفیق غوری کے نام سے چھپے اور اس کے بعد نوائے وقت باقاعدہ جوائن کر لیا اور ایوان وقت کا انچارج بھی بنا دیا گیا جس کے بعد میاں محمد نواز شریف کا بطور وزیر اعلٰی اوربطور وزیر خزانہ پہلا انٹرویو بھی رفیق غوری صاحب نے ہی کیا۔اسکے ساتھ ساتھ ہفت روزہ آواز خلق میں وزیر اعلیٰ میاں محمد نواز شریف کے خلاف کرپشن کی خبر بھی سب سے پہلے چھاپی اور خمیازہ بھی بھگتا۔ ان حالات میں رفیق غوری نے مرد مجاہد مجید نظامی صاحب سے ایک خبر شائع کرنے کی درخواست کی جس میں بتایا گیا کہ کس طرح میاں محمد نواز شریف کے بارے میں کرپشن کی خبریں چھاپنے والے ہفت روزہ آواز خلق کے خلاف کارروائیاں عمل میں لائی گئی ہیں۔ مرد مجاہد مجید نظامی نے رفیق غوری کا موقف شائع کر کے حق اور سچ کا ساتھ دیا تھا۔ رفیق غوری نے اس بات کو کبھی فراموش نہیں کیا۔
داستاں بہت طویل ہے جی این این بند ہونے کے بعد بے پناہ ذہنی اذیت برداشت کی۔ اسی ذہنی اذیت کے دوران برین ہمیرج بھی ہوا۔ کچھ عرصہ کے لئے چلنا پھرنا اور پڑھنا بھی مشکل ہو گیا۔ کچھ دوست مشورہ دیتے رہے کہ اپنے آپ کو تبدیل کریں۔ کاروبار دوبارہ شرو ع کریں، سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا اور ہونے والا نقصان بھی پورا ہو جائے گا لیکن انکے ضمیر نے یہ گوارہ نہ کیا۔ رفیق غوری سے ہمیشہ پوچھا جاتا رہا کہ اس وقت جی این این میں لگائی گئی رقم جو 97 لاکھ کے لگ بھگ تھی وہ کہاں سے آئی لیکن سچ پوچھا جائے تو ان کا کہنا تھا کہ مجھے خود نہیں پتہ کہ میرا رب مجھے کہاں سے اور کس طرح نوازتا ہے۔ جمیل اطہر قاضی بتاتے ہیں کہ ایک مرتبہ غوری صاحب ” برسی رفیق غوری مہمان خصوصی جناب مجید نظامی “ کا بینر لکھوائے دفتر میں آئے اور اصرار پر الحمرا ادبی بیٹھک لے گئے وہاں کرسیاں اکٹھی کیں صوفے کا رخ درست کیا۔ایک دوست کو سموسے اور چائے اور دوسرے کو مائیک لانے کی ذمہ داری بھی سونپ دی۔ وہاں پر موجود دوستوں کو شبہ لاحق تھا کہ مجید نظامی اس بظاہر غیر سنجیدگی والی تقریب میں تشریف لاتے بھی ہیں یا نہیں لیکن مجید نظامی صاحب اچانک تشریف لے ہی آئے اور تقریب کی کاروائی نظامی صاحب ہی کے خطبہ صدارت پر اختتام پذیر ہوئی۔ تقریب میں نظامی صاحب کی شرکت پر عطاءالحق قاسمی سمیت سب ورطہ حیرت میں مبتلا تھے۔ غوری صاحب کی مجید نظامی صاحب سے افکار و نظریات کے باعث غیر معمولی محبت تھی اور نظامی صاحب بھی غوری صاحب کی بہت قدر کرتے تھے
اب اس کے بارے میں کچھ اور ہم کیا کہیں
کہ مرنے والا تو ہم سے بھی زیادہ زندہ تھا
25 اگست 2010 کورفیق غوری نے جان جان آفرین کے سپرد کی اور سچائی، حق گوئی کی حامل بے باک،باضمیر اور نڈر صحافت کا ایک اور باب اپنے اختتام کو پہنچا اس دعا کیساتھ اختتام کرتے ہیں کہ اللہ تعالی ہمیں ہمت دے کہ ہم انکے مشن کو آگے بڑھا سکیں اور نعرہ پاکستان ہے تو ہم ہیں کو ساتھ لیکر چلیں۔باطل کے سامنے کلمہ حق کہہ سکیں۔ کام مشکل تو ہے لیکن اللہ چاہے تو اپنے بندوں سے کیا نہیں کروا سکتا۔ اللہ پاک جنت الفردوس میں انکی بہترین میزبانی فرمائیں -آمین ثم آمین