بین الاقوامی ریٹنگ ایجنسی ”موڈیز“ نے پاکستان کی ریٹنگ ایک درجہ بہتر کردی اور آﺅٹ لک بڑھا کر پازیٹو کردی ہے۔ اس سلسلہ میں موڈیز کی جانب سے جاری کئے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کی معیشت کا منظرنامہ مثبت ہے جس کے باعث پاکستان کی ریٹنگ CAA2 کردی گئی ہے۔ یہ ریٹنگ پاکستان کی بہتر ہوتی معاشی صورتحال کے پیش نظر کی گئی ہے جبکہ پاکستان کی لیکویڈٹی کی صورتحال میں معمولی بہتری بھی ریٹنگ بہتر ہونے کا باعث بنی ہے۔ موڈیز کے بیان کے مطابق پاکستان کے ڈیفالٹ رسک میں بھی کمی ہوئی ہے۔ اس بنیاد پر پاکستانی حکام پرامید ہیں کہ آئی ایم ایف سے سات ارب ڈالر کی وصولی کیلئے اس عالمی ادارے کی پیشگی شرائط پوری کرلی جائیں گی۔ پاکستان نے چین‘ روس‘ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے درخواست کر رکھی ہے۔ اسکے علاوہ پاکستان نے سعودی عرب سے 12 ارب ڈالر قرض کی درخواست بھی کر رکھی ہے۔
وزیراعظم شہبازشریف نے موڈیز کے بیان پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ پاکستان کی درست معاشی پالیسیوں کا اعتراف ہے۔ انہوں نے گزشتہ روز ایک اعلیٰ سطح کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اللہ کے فضل سے معیشت کی بہتری کیلئے ہماری کاوشیں رنگ لا رہی ہیں۔ ہم نے گزشتہ دور حکومت میں ملک کی خاطر سیاست کی قربانی دی اور معیشت کو ڈیفالٹ سے بچایا۔ اب ملک کی معیشت استحکام کے بعد ترقی کی جانب گامزن ہے جو اہم پیش رفت ہے۔
عالمی ریٹنگ ایجنسی موڈیز کی جانب سے یقیناً کسی ملک کی اقتصادی پالیسیوں اور صورتحال کا جائزہ لینے کے بعد ہی اسکی ریٹنگ کا تعین کیا جاتا ہے۔ چونکہ پاکستان میں رونما ہونیوالے سیاسی تغیروتبدل کے ملک کی معیشت پر بھی اثرات مرتب ہوتے ہیں اس لئے موڈیز کی جانب سے اسکے اقتصادی‘ معاشی حالات کا جائزہ لینے کے وقت معیشت عدم استحکام کا شکار نظر آئیگی تو موڈیز کی جانب سے اسکی ریٹنگ بھی کم کردی جائیگی اور اس کی آﺅٹ لک بھی مثبت سے منفی میں تبدیل ہو جائیگی جبکہ حکومت اور اسکی اپوزیشن جماعتوں کو ان رپورٹوں پر بھی سیاست کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔ بادی النظر میں ایسی رپورٹیں محض سطحی جائزے کی بنیاد پر مرتب ہوتی ہیں جو کسی ملک کی معیشت و معاشرت سے متعلق زمینی حقائق سے مطابقت نہیں رکھتیں۔ یہ رپورٹیں بالعموم مثبت ہی ہوتی ہیں جس پر لوگوں کے ذہنوں میں مختلف سوالات بھی اٹھتے ہیں اور ایسی رپورٹوں کو خانہ ساز تصور کیا جاتا ہے۔
موڈیز کی جانب سے گزشتہ روز پاکستان کی ریٹنگ بڑھنے اور آﺅٹ لک مثبت ہونے کا جو بیان جاری کیا گیا اس کا پاکستان کی معیشت اور عوام کی حالت زار کے ساتھ موازنہ کیا جائے تو اس رپورٹ میں بادی النظر میں مبالغے کا عنصر ہی غالب نظر آئیگا۔ اصل حقیقت یہی ہے کہ ملک کے عوام کی اکثریت اپنے اقتصادی حالات کو روزافزوں غربت‘ مہنگائی‘ بے روزگاری اور یوٹیلٹی بلوں میں براہ راست اور بالواسطہ ٹیکسوں کی بھرمار کے نتیجہ میں مزید خراب ہوتے دیکھ کر آج سڑکوں پر سراپا احتجاج ہے جبکہ ٹیکسوں کی بھرمار اور بجلی کے بلوں کے ناقابل برداشت ہونے کے نتیجہ میں تنخواہ دار مزدور طبقہ ہی نہیں‘ تاجر پیشہ کاروباری طبقات بھی سخت مضطرب اور اپنے مستقبل سے مایوس نظر آتے ہیں۔ ناروا ٹیکسوں سے مضطرب ہوئی تاجر برادری نے گزشتہ روز اسی بنیاد پر ملک گیر ہڑتال کی جو ان کے بقول مجموعی طور پر کامیاب رہی اور زیادہ تر شہروں میں شٹرڈاﺅن رہے جبکہ تاجر تنظیموں کی جانب سے انکے بیان کردہ ناروا ٹیکسوں کی واپسی تک ان کا احتجاج کا سلسلہ جاری رہے گا اور مطالبات منظور نہ ہونے کی صورت میں ملک گیر شٹرڈاﺅن کی کال غیرمعینہ مدت کیلئے بھی دی جاسکتی ہے۔ حکمران پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم سمیت مختلف سیاسی جماعتیں بھی اس احتجاج میں تاجروں کے ساتھ کھڑی نظر آرہی ہیں اور جماعت اسلامی عملی طور پر تاجروں کی تحریک میں شریک ہے جو اس سے قبل بجلی کے بلوں میں کمی اور آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں پر نظرثانی کیلئے لیاقت باغ راولپنڈی میں 14 روز کا طویل دھرنا بھی دے چکی ہے اور اپنے مطالبات مکمل طور پر تسلیم ہونے تک احتجاج کا سلسلہ جاری رکھنے کا عندیہ بھی دے چکی ہے۔ اسی طرح دیگر شعبہ ہائے زندگی کے لوگ بھی اپنے اقتصادی مسائل بالخصوص بجلی کے بلوں سے عاجز آکر تہیہءطوفان کئے بیٹھے نظر آرہے ہیں اور بے وسیلہ و مجبور گھرانوں میں خودکشیوں کا رجحان بھی بڑھ رہا ہے۔ گزشتہ روز بھی شاہدرہ ٹاﺅن لاہور میں غربت کے مارے ایک شخص نے اپنی اہلیہ‘ بیٹوں اور بیٹیوں سمیت زہر کھا کر خودکشی کی کوشش کی تاہم ون فائیو کی بروقت کارروائی کے باعث ان سات قیمتی جانوں کو مرنے سے بچالیا گیا۔ اس بدنصیب خاندان کے سربراہ محمد رضا کی یہ دہائی جگر چھلنی کرنے کے مترادف ہے کہ ”گھر میں راشن ہے نہ گھر کا کرایہ ادا کرنے کی سکت‘ پھر ہم زندہ رہ کر کیا کرینگے۔“
بے شک موڈیز نے اپنی مثبت رپورٹ کے ذریعے حکمرانوں کے پاﺅں اقتدار پر مضبوط بنائے ہیں تاہم ایسی رپورٹوں سے زیادہ حکومت کو عوام کے اعتماد اور اطمینان کی ضرورت ہے جو انہیں بے انتہاءغربت‘ مہنگائی‘ بھاری بھرکم یوٹیلٹی بلوں اور دیگر ضروریات زندگی میں ریلیف دیئے بغیر ممکن نہیں جبکہ ریلیف کے حکومتی دعوﺅں کا یہ حال ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں نوازشریف نے وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کو اپنے ساتھ پریس کانفرنس میں بٹھا کر بجلی کے صارفین کو پانچ سو یونٹ تک 14روپے فی یونٹ بجلی کے بل کم کرنے کا اعلان کیا اور اسکے اگلے روز ہی نیپرا کی جانب سے فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں بجلی کے نرخوں میں چار روپے فی یونٹ اضافے کا اعلان کر دیا گیا۔ اسی طرح اب گزشتہ روز حکومت نے موڈیز کی مثبت رپورٹ کا کریڈٹ لیا تو اسکے ساتھ ہی ملک بھر میں بجلی کے نرخوں میں ایک روپیہ 87 پیسے اضافے سے متعلق نیپرا کے فیصلے کی خبر آگئی۔ گویا صارفین کیلئے ”دل کو خوشی کے ساتھ ساتھ ہوتا رہا ملال بھی“ والی کیفیت برقرار رکھنا ضروری سمجھا گیا۔
اس تناظر میں وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب اور دوسرے حکومتی وزیر‘ مشیر شدومد کے ساتھ عوام کو یہ بھی باور کراتے ہیں کہ انہیں ٹیکس تو بہرصورت دینا پڑگا جبکہ عوام سے براہ راست اور بالواسطہ طور پر ٹیکسوں کی وصولی میں کوئی کسر بھی نہیں چھوڑی گئی کیونکہ روزمرہ استعمال کی کوئی چیز ایسی نہیں بچی جس پر جی ایس ٹی لاگو نہ ہو۔ عوام تو بلاشبہ رضاکارانہ طور پر بھی اور جبراً بھی ہر قسم کے لاگو ہونے والے ٹیکس ادا کر رہے ہیں مگر اسکے برعکس حکمران اشرافیہ طبقات اپنے لئے مزید مراعات بھی سمیٹ رہے ہیں اور ٹیکس چوری کا کلچر بھی ان میں سرایت کر چکا ہے جس سے حکمرانوں کے عوام کے ساتھ امتیازی سلوک کا تاثر ابھرتا ہے تو حکومتی پالیسیوں کے خلاف عوامی اضطراب کے بڑھنے کی نوبت بھی آجاتی ہے۔ آئی پی پیز کے ساتھ کئے گئے ناروا معاہدے اور پھر ان معاہدوں میں توسیع عوامی غصے میں اضافہ کا باعث بنی ہے جو سوشل میڈیا پر تسلسل کے ساتھ اجاگر ہو رہا ہے۔ اس صورتحال میں حکومت موڈیز کی رپورٹ پر وقتی طور پر تو اپنی حکمرانی کے معاملہ میں مطمئن ہو سکتی ہے مگر ایسی رپورٹوں سے عوام کو کا کوئی سروکار نظر نہیں آتا۔ انہیں مطمئن کرنے کے لیئے فی الواقع اور حقیقی ریلیف کی ضرورت ہے اور اچھی حکمرانی کی مثال عوام کے اطمینان کی بنیاد پر ہی قائم کی جاسکتی ہے۔