محمد طاہر عزیز
استاد العلماء ، مفتی اعظم پاکستان، مفتی محمد عبدالقیوم ہزاروی 29 شعبان 1352ھ بمطابق 1933ء کو ضلع مانسہرہ میں پیدا ہوئے۔ ان کا بچپن جڑانوالہ ضلع فیصل آباد میں ان کے والد مولانا حمید اللہ ہزاروی کے زیر سایہ گزرا اور قرآن مجید بھی انہی سے پڑھا۔ پرائمری تک تعلیم بھی وہیں حاصل کی اور اس کے بعد دینی تعلیم کی جانب متوجہ ہوئے اور اپنے چچا مولانا محبوب الرحمان سے ابتدائی دینی کتب پڑھیں۔ باقاعدہ تعلیم کا آغاز جیندھڑ شریف ضلع گجرات سے کیا۔ جیندھڑ شریف ضلع گجرات کیعلاوہ پاکستان کے مْتعدّد دینی اداروں سیاکتسابِ علم کرتے ہوئے 1955ء میں مرکزی دارْالعْلوم حِزبْ الاحناف لاہور سے فارِغْ التحصیل ہوئے ، اور 1956 میں جامعہ رضویہ مظہر ِاسلام ، فیصل آباد میں محدّثِ اعظم پاکستان مولانا محمد سردار احمد چشتی قادری سندِ حدیث اور دستارِ فضیلت حاصل کی۔
اپنی خود نوشت میں رقم طراز ہیں کہ جب ہم جیندھڑ شریف (گجرات،پاکستان) میں زیر تعلیم تھے تو ان دنوں پاکستان کی تحریک عروج پر تھی، ہم طلباء اسباق سے فراغت کے بعد محلے کی گلیوں میں دوڑتے اور نعرے لگاتے ’’ لے کے رہیں گے پاکستان۔۔۔۔بن کے رہے گا پاکستان۔۔۔۔ پاکستان کا مطلب کیا ؟۔۔۔۔ لا الہ الا اللہ۔۔۔ دستور ریاست کیا ہوگا ؟ محمدؐ الرسول اللہ
علوم درسیہ کی تکمیل کے بعد جامعہ حنفیہ ضلع قصور میں اپنی تدریسی اور عملی زندگی کا آغاز فرمایا اور یہاں یومیہ بیس سے زائد اسباق پڑھاتے رہے۔ ایک سال یہاں گزارنے کے بعد اپنے استاد و شیخ گرامی کے حکم پر فیصل آبادسمندری میں فرائض سر انجام دینے کیلئے تشریف لے گئے۔ مدارس کی سالانہ تعطیلات کے بعد وہیں مدرسہ غوثیہ رضویہ پیر محل میں تدریسی امور بھی سنبھالنے تھے کہ اسی دوران ان کے استاد ِگرامی علامہ غلام رسول رضوی کے لاہور طلب فرمانے پر آپ اندرون لوہاری گیٹ لاہور میں واقع جامعہ نظامیہ رضویہ میں آگئے۔ جب محدث اعظم پاکستان کا انتقال ہو گیا تو مولانا غلام رسول رضوی کو فیصل آباد ان کی جگہ بطور محدث جانا پڑ گیااور جامعہ نظامیہ کی ساری ذمہ داری آپ پر آن پڑی۔
حضرت مفتی محمد عبدالقیوم ہزاروی صرف لکھنے کی حد تک نہیں بلکہ فی الحقیقت وہ خدمات دینیہ کے تمام شعبہ جات پر ایک اتھارٹی سمجھے جاتے اور اپنی ماہرانہ آراء سے دوسروں کی راہنمائی بھی فرماتے۔آپ کو ذاتی طور پر کتنی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا کئی بار جان سے مارنے کی دھمکیاں دی گئیں مگر پائے استقامت میںکوئی لغزش واقع ہوئی ۔ آپ کی اسی محنت شاقہ کو دیکھ کر امام اہل سنت غزالی زماں علامہ سید احمد سعید شاہ کاظمی ان کی جانب اشارہ کر کے فرماتے کہ ’’یہ ہمارے مفتی عبدالقیوم ہزاروی صاحب ہیں ان سے اہل سنت قائم ہے‘‘
آپ تنطیم المدارس اہل سنت پاکستان (بورڈ) اور رَضا فائونڈیشن کے بانی تھے۔ جماعت اہل سنت کی سپریم کونسل، مرکزی رویت ہلال کمیٹی اور زکوٰۃ کمیٹی کے رکن بھی رہے۔ آپ چودہ سال مرکزی و صوبائی زکوٰۃ کونسل اور وزارت داخلہ کی ایڈوائزری کونسل کے ممبر رہے ۔آپ کے ہزاروں تلامذہ ملک و بیرون ملک میں دینی خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ جن میں شرف ملت علامہ محمد عبدالحکیم شرف قادری، علامہ پروفیسر مفتی منیب الرحمان صدر تنظیم المدارس اہلِ سنّت پاکستان، مہتمم دارْالعلوم نعیمیہ،جامع المعقول والمنقول علامہ حافظ محمد عبدالستار سعیدی، ادیب شہیر علامہ مفتی محمد صدیق ہزاروی، شیخ الحدیث علامہ ڈاکٹر فضل حنان سعیدی،نازش اہل سنت علامہ قاری محمد عارف سیالوی صوبائی خطیب محکمہ اوقاف پنجاب، علامہ مفتی محمد رمضان سیالوی شامل ہیں۔ تنظیمْ المدارس اہلِ سنّت پاکستان جیسے عظیم ادارے کا قیام آپ ہی کی کاوش ہے، اٹھائیس برس آپ اس کے ناظم اعلیٰ رہے ۔
اس قدر مصروف زندگی ہونے کے باوجود آپ نے اردو و عربی زبان میں درجنوں علمی و تحقیقی کْتْب تصنیف کیں جن میں التوسّل ، العقائد والمسائل اورتاریخ نجد وحجاز، مقالات مفتی اعظم ، زیادہ مشہور ہیں۔ اور ہزاروں فتاویٰ جات تحریر فرمائے۔ ان کے مقالہ جات اْن کے بھانجے مولانا مفتی محمد حبیب احمد سعیدی اور راقم نے جمع کیے اور مقالات مفتی اعظم کے نام سے طبع ہو چکے ہیں۔ آپ کے فتاویٰ ملک و بیرون ملک میں مسلم تھے دو بار بیرونی عدالتوں میں ایک بار دبئی اور ایک بار سعودی عدالت نے(وسیلہ کے موضوع پر) آپ کے فتویٰ پر فیصلہ دیا۔ وہ عربی فتویٰ راقم کے اردو ترجمہ کے ساتھ بزم غوثیہ جامعہ حنفیہ غوثیہ بیرون بھاٹی گیٹ لاہورسے مولانا محمد طاہر شہزاد سیالوی کی نگرانی میں وسیلہ کی شرعی حیثیت قرآن و حدیث کی روشنی میں کے نام سے طبع ہوچکا ہے۔
امامِ اہلِ سنّت، مجددِ دین و ملّت شاہ امام احمد رضا خان کے عظیم علمی و فقہی شاہکار ‘‘فتاویٰ رضویہ‘‘ کو آپ نے جدید دور کے تقاضوں کے مطابق ڈھالنے کے لئے اس کی عربی و فارسی عبارات کا ترجمہ کروایا ۔جس کی 24 جلدیں آپ کی زندگی میں جبکہ 9 بعدِ وصال شائع ہوئیں۔ علاوہ ازیں فاضل بریلی کی درجن بھر سیزائد کتب کو از سرنو ان پر معیاری کام کروا کے عالمی سطح کے تقاضوں اورمعیار کیمطابق شائع کیا۔
عالم ِ اسلام کی عظیم دینی یونیورسٹی جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور کے فضلا اور فیض یافتگان کے حوالے سے بھی ضرورت محسوس کی گئی کہ مرکز کے ساتھ اْن کے تعلق کو قائم اور مضبوط بنایا جائے، چنانچہ مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد عبد القیوم ہزاروی کی خواہش کے مطابق جامعہ نظامیہ رضویہ کے فضلا کے لیے ’’مجلس علماء نظامیہ پاکستان‘‘ کے نام سے ایک پلیٹ فارم قائم کیا گیا، جس کا مقصد جامعہ کے فضلا کی اپنے مرکز کے ساتھ وابستگی اور انہیں جدید دور کے تقاضوں سے آگاہ کرکے دین کی خدمت کا جذبہ پیدا کرنا تھا۔
آپ نے بھرپور عملی زندگی گزاری اور خدا شاہد ہے کہ زندگی میں ہی اپنی خواہشات کا ثمر بھی بطریق احسن بلکہ اپنی توقعات سے بڑھ کر پایا ۔ حضرت مفتی صاحب کے رفیق با وفا و دست راست علامہ حافظ محمد عبدالستار سعیدی مدظلہ کی تحقیق کے مطابق بچپن کے ابتدائی نو (9) سال نکال کے باقی زندگی کے 61 سال برس علوم دینیہ کی تعلیم و تعلم میں بسر فرمائے۔ گویا تقریباً 49سال تدریس کی اوران میں 29 سال حدیث شریف پڑھائی۔
آپ کو اللہ کریم نے چار صاحبزادوں سے نوازا۔حافظ سعید احمد، مولاناصاحبزادہ محمد عبد المصطفٰیہزاروی، ناظم اعلیٰ تنظیم المدارس اہل سنت پاکستان و جامعہ نظامیہ رضویہ ،مولانا حافظ نصیر احمد ہزاروی،ناظم اعلیٰ جامعہ نظامیہ رضویہ شاہدرہ، اور مولانا حافظ غلام مرتضیٰ ہزاروی ناظم تعلیمات جامعہ نظامیہ رضویہ شیخوپورہ، الحمد للہ علامہ صاحبزادہ عبدالمصطفیٰ ہزاروی کی قیادت راہنمائی اور سرپرستی میں آپ کے صاحبزادگان آپ کے مشن پر گامزن ہیں۔آج جامعہ نظامیہ رضویہ کو ان کی بدولت رشک قمر قرار دیاجاتا ہے جہاں دس ہزار سے زائد طلبہ و طالبات تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ آپ 27 جمادی الآخر 1424ھ بمطابق 26 اگست 2003ء بروز منگل بعد نمازِ مغرب اچانک حرکتِ قلب بند ہونے کے سبب اپنے رب کے حضور پیش ہوئے۔ قائد ملت اسلامیہ علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی کی امامت میں ان کی نماز جنازہ ادا کی گئی اورجامعہ نظامیہ شیخوپورہ میں قائم جامعہ مسجد رضا کی بائیں جانب آپ کی تدفین عمل میں لائی گئی۔