تحفظ ناموس رسالتؐ ہمارا ایمان

مولانا قاری محمد سلمان عثمانی
نبی کریمؐ کی ناموس کا تحفظ دراصل دین اسلام کا تحفظ ہے،اللہ کریم کے بعد جس ہستی کا ہم پر سب سے زیادہ احسان ہے وہ سرور کائنات رحمت عالم حضرت محمد ؐکی ذات اقدس ہے مسلمانوں کا نبی کریم ؐ سے جو تعلق ہے وہ تمام دوسرے انسانی تعلقات سے بہت بڑا ہے۔ نبی کریمؐاپنی امت کیلئے ان کے ماں باپ سے بھی بڑھ کر شفیق و رحیم اور ان کی اپنی ذات سے بڑھ کر خیر خواہ ہیں،لہٰذا وہی سب سے زیادہ قریب بھی ہیں یہاں تک کہ جان سے بھی زیادہ قریب، حقدار اور ولی بھی ہیں،حضرت ابو ہریرہؓسے روایت ہے کہ امام الانبیاء ؐ نے ارشاد فرمایا میں دنیا اور آخرت میں ہر مومن کا سب سے زیادہ قریبی ہوں تو جس مسلمان کا انتقال ہو جائے اور مال چھوڑے تو وہ اس کے عصبہ (یعنی وارثوں) کا ہے اور جو قرض یا بال بچے چھوڑ جائے تو وہ میرے پاس آئیں کہ میں ان کا مددگار ہوں (صحیح بخاری) ۔
جب رسول اللہؐ کا حق تمام ایمان والوں پر سب سے زیادہ ہے تو ان کی محبت بھی اہل ایمان کے دلوں میں سب سے زیادہ ہونی چاہیے،یہاں تک کہ اپنی ذات سے، اپنے ماں باپ سے، اپنی اولاد سے بلکہ تمام انسانوں سے زیادہ محبت رسول اللہؐ کی ذات سے کرنا لازم ہے ارشاد ہے تم میں سے کوئی شخص صاحب ایمان نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس کے دل میں میری محبت اپنے والد اپنے لڑکے اور تمام لوگوں سے زیادہ نہ ہو(بخاری، مسلم)اسی طرح یہ بھی روایت میں ہے کہ حضرت سیدنا عمرؓنے کہا یارسول اللہ! آپ کی محبت میرے دل میں کائنات کے تمام چیزوں سے بڑھ کر ہے، سوائے میرے نفس کے تو آقا نے فرمایا کہ اپنے نفس سے بھی زیادہ میری محبت ہونی چاہیے، تو انہوں نے کہا کہ اب اپنے نفس سے زیادہ آپ سے محبت کرتا ہوں،ناموس سے مراد آبرو، عزت، شہرت، عظمت اور شان ہے۔ ناموس رسالت سے مراد رسول کی آبرو، عزت، شہرت، عظمت اور شان ہے اور تحفظ ناموس رسالت سے مراد ہے کہ کسی بھی رسول کی آبرو، شہرت، عزت، عظمت یا شان کا لحاظ کرنا،ہر قسم کی عیب جوئی اور ایسے کلام سے پرہیز کرنا جس میں بے ادبی ہو ان تمام امور کا لحاظ رکھنا فرض ہے اور مخالفت کرنا کفرہے اللہ تعالیٰ نے ساری مخلوق کے لیے سیدنا محمدؐ کو رسول، رہنماء  و رہبر بنا کر مبعوث فرمایاآپ ؐ نے اپنوں اور بیگانوں میں تریسٹھ سالہ ظاہری زندگی بسر کی وہ بھی بھر پور تمام کے ساتھ لین دین کیا مسجد کے مصلیٰ سے لے کر سربراہ ریاست تک آپ نے معاملات سر انجام دیئے اپنے تو کجا بیگانوں اور مخالفوں نے بھی تسلیم کیا کہ ان کی ذات اقدس کے معاملات بھی اس قدر امین وپاکیزہ ہیں کہ اس کی مثال نہیں ملتی لیکن اس کے باوجود کفار نے آپؐ کے خلاف توہین آمیز الفاظ استعمال کئے۔آپؐ نے اپنی ساری ظاہری حیات میں کسی سے ذاتی انتقام نہیں لیا ہاں حدود الٰہی توڑنے اور مخلوق پر ظلم و ستم کرنے والوں سے کبھی سمجھوتہ نہیں کیا۔حضور اقدس ؐکی ذاتِ اقدس میں اللہ جل شانہ نے وہ تمام انسانی بلند اوصاف و اخلاق جمع فرمادیئے، جن پر ’’شرف انسانی‘‘ کی بنیاد قائم ہے ۔
حضور ؐہی اس کیلئے عقیدتوں اور محبتوں کا مرکز و محور ہیں اور ان ہی کے نام سے اس کی آبرو قائم ہے،ایک اور آیت میں حضور ؐکی اتباع کا حکم دیتے ہوئے کہا گیا ہے اور رسول جو کچھ تمہیں دے دیا کریں،وہ لے لیا کرو، اور جس سے وہ تمہیں روک دیں، رک جایا کرو، اللہ سے ڈرو، بے شک اللہ سزا دینے میں بڑا سخت ہے (سورۃ الحشر:۷)ایک دوسری آیت میں اللہ اور اللہ کے رسولؐکے حکم پر لبیک کہتے ہوئے سر تسلیم خم کرنے کو مومنین کا شیوہ بتاتے ہوئے کہا گیاایمان والوں کا قول تو یہ ہے کہ جب وہ بلائے جاتے ہیں اللہ اور اس کے رسولؐ کی طرف کہ(رسول) ان کے درمیان فیصلہ کردیں تو وہ(ایمان والے) کہیں کہ ہم نے سن لیا اور مان لیا(سورۃ النور:۵۱)ایک اور جگہ وضاحت کردی ہے کہ اللہ اور رسولؐ کے فیصلے اور حکم آنے کے بعد کسی مومن مرد، عورت کے شایانِ شان نہیں کہ وہ اس کے برعکس من مانی کریں، ایسی صورت میں سوائے تعمیل حکم کے اس کے لئے کسی اور راہ کو اختیار کرنے کی گنجائش نہیں، ہر دور میں اہل ایمان نے آپ ؐ کی شخصیت کے ساتھ تعلق ومحبت کی لازوال داستانیں رقم کیں اور اگر تاریخ کے کسی موڑ پرکسی بد بخت نے آپ ؐکی شان میں کسی بھی قسم کی گستاخی کرنے کی کوشش کی تو مسلمانوں کے اجتماعی ضمیر نے شاتم رسولؐ کے مرتکبین کو کیفر کردار تک پہنچایا ہے یہی وجہ ہے کہ عالم کفر ہمیشہ مسلمانوں کے دل سے رسول اللہؐ کی محبت و عقیدت کو ختم کرنے کی کوشش کرتا رہا ہے،خاتم النبیّینؐ کی اطاعت ہی اسلام ہے، قرآن مجید میں اطاعت و اتباع کے ساتھ ساتھ آپ ؐکی تعظیم، تکریم اور ادب کی بھی تاکید کی گئی ہے-قرآن کریم میں تعظیم و ادب بجا لانے والوں کی تحسین کی گئی، انہیں اجر عظیم اور بخشش کی نوید سنائی گئی جبکہ اس کے بر عکس آداب و تعظیم سے غفلت برتنے والوں کو تنبیہ بھی کی گئی اور درد ناک عذاب کا انجام بھی سنایا گیا،آپ ؐ کو ایذا پہنچانے والوں اور گستاخی کرنے والوں کیلئے سخت احکامات نازل ہوئے یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرامؓ کی زندگیاں عشق مصطفی اور ادب مصطفی سے عبارت ہیں، مثلاً آپؐکا خون مبارک زمین پہ نہ گرانا، وضو کا پانی نیچے نہ گرنے دینا بلکہ اسے اپنے اجسام پہ ملنا، موئے مبارک سنبھال کر رکھنا حتیٰ کہ آقا کریم ؐ کے لعاب شریف سے شفا اور برکت حاصل کرنا اور اس کے علا وہ اور بھی کئی مثالیں موجود ہیں جس میں صحابہ کرام ؓ کا عشق و محبت ملتا ہے،۔جناب نبی اکرم سید دوعالم ؐ کے خصائص میں ایک خصوصیت یہ ہے کہ آپؐ کا دائرہ نبوت سارے عالم کو محیط ہے، زمین و زمان اور مکین و مکاں آپؐ کی رسالت ؐکے پرتو سے منور ہیں،خلاق عالم نے آپ ؐ کو اس وقت ہی منصب نبوت پر فائز فرما دیا تھا جب فرش زمیں کی آبادکاری کے نقطہء آغاز میں ابوالبشر سیدنا آدمؑ کا مجسمہ ابھی پانی اور مٹی کی امتزاجی کیفیت میں تخلیقی مراحل سے گذر رہا تھا،لیکن آپ ؐکی رسالت عامہ اور نبوت تامہ کا ظہور سب سے آخر میں فرمایا،اس میں راز یہ تھا کہ ابتدائے آفرینش اور انتہائے عالم کے دونوں مواقع میں آپؐ کی نبوی شان و شوکت کوعیاں کرکے کائنات پر آپ ؐکی عالمگیر رسالت کی عظمت اجاگر کر دی جائے۔مولائے کریم ہمیں اپنے پیا رے آقا حضرت محمدؐ کی اتباع و پیروی کر نے کی توفیق نصیب فرمائیں۔

ای پیپر دی نیشن