بدستور مستور

Aug 30, 2024

عبداللہ طارق سہیل

بنگلہ دیش کی عبوری حکومت نے جماعت اسلامی پر لگائی گئی پابندی اٹھا دی ہے۔ حسینہ واجد نے اپنی حکومت کے آخری دنوں میں جماعت اسلامی کو کالعدم کر دیا تھا اگرچہ وہ ایک لمحے کیلئے بھی کا لعدم نہ  ہو سکی۔ حسینہ واجد کی حکومت نے یہ پابندی دوسری مرتبہ لگائی تھی۔ اس سے پہلے ، حالیہ سے قبل کے انتخابات میں اس نے الیکشن کمشن کے ذریعے جماعت اسلامی پر پابندی لگائی تھی ،یعنی بطور جماعت تو وہ موجود تھی لیکن الیکشن لڑے کیلئے نااہل تھی۔ 
عربستاں کی تحریکوں کے بعد سب سے زیادہ مظالم جماعتِ اسلامی بنگلہ دیش نے برداشت کئے۔ شیخ مجیب الرحمن نے جب نوزائیدہ بنگلہ دیش کی حکومت سنبھالی تو جماعت کے کارکن چن چن کر قتل کئے اور جیلوں میں ڈالے۔ جماعت کی قیادت کچھ مار دی گئی، کچھ پکڑی گئی، کچھ مفرور ہو گئی۔ 1975ء  میں ضیا ء الرحمن نے شیخ مجیب کو سفر آخرت پر روانہ کیا تو جماعت کا پہلا دورِ ابتلا ختم ہوا۔ لیکن حسینہ واجد برسراقتدار آئی تو دور ابتلا بھی بحال ہو گیا۔ پھر جنرل ارشاد اور خالدہ ضیا کی حکومتوں میں ریلیف ملا۔ جنوری 2009ء میں حسینہ واجد پھر برسراقتدار آئی اور اس کے بعد جانے کا نام نہیں لیا۔ بڑی مشکل سے، 15 برس بعد، رواں سال پچھلے مہینے اس کی حکومت ختم ہوئی۔ اس پندرہ سالہ دور میں جماعت پر جو عذاب اس نے نازل کیا، اس کی سنگینی ناقابل بیان ہے۔ جماعت کی صف اوّل اور صف دوئم کی پوری قیادت ختم کر دی گئی۔ بہت سے تختہ دار پر لٹکا دئیے گئے، بہت سوں کو جیل کے اندر ان حالات میں رکھا گیا کہ وہ بیمار پڑ گئے، دوا دینے کی ممانعت تھی، علاج نہ ہونے کے باعث وہ جیل ہی میں وفات پا گئے۔ 
لیکن جماعت کے نظم کو داد دیجئے۔ قائدین کی اتنی بڑی تعداد سے محرومی کے باوجود جماعت کے اندر کسی بھی سطح پر قیادت کا خلاء پیدا نہیں ہوا۔ 
جماعت اسلامی پاکستان کے برعکس بنگلہ دیش کی جماعت اسلامی اپنے اصل نظریاتی محور سے بندھی ہوئی ہے۔ وہی نظریہ جو اس کی تاسیس کے وقت تھا۔ بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی بہت وسیع ووٹ بنک رکھتی ہے۔ 1971ء کے الیکشن میں عجب ستم ظریفی ہوئی۔ عوامی لیگ کے بعد، 162 سیٹوں میں سے ہر سیٹ پر جماعت اسلامی کا امیدوار دوسرے نمبرپر رہا یعنی دوسرے نمبر پر سب سے زیادہ ووٹ لئے۔ اتنے زیادہ ووٹ لینے کے باوجود اسے اسمبلی کی ایک بھی سیٹ نہیں ملی۔ 
______
بنگلہ دیش کے برعکس پاکستان کی جماعت اسلامی نے 1970ء کے انتخابات کے بعد نظریاتی طور پر تیہ کی وادی میں جا گھس اور 55 سال سے وہ اسی وادی تیہ میں باریہ پیمائی کئے جا رہی ہے۔ بنی اسرائیل کی سرگردی 40 سال میں ختم ہوئی لیکن جماعت کو تو پورے 54 سال ہو گئے۔ میاں طفیل محمد مرحوم نے پہلے یحییٰ خاں کو پھر ضیاء الحق کو مرشد بنایا۔ قاضی حسین احمد مرحوم نے پہلے ضیاء الحق، پھر غلام اسحاق اور اس کے بعد جنرل مشرف کو قبلہ گاہی کا درجہ دیا۔ سراج الحق صاحب نے تو حد کر دی، وہ مرشدانی جی کی روحانی زلف کے اسیر ہو گئے۔ مرشدانی کے لفظ کے اصناف اللغّات میں ساحرہ کے بھی لکھے ہیں۔ یعنی مرشدانی اور ساحرانی مترادف ہیں۔ 
برسبیل تذکرہ، ساحرہ بی اے یا شاید ساحرہ ایم اے نام کی جماعت اسلامی کی ایک بہت اچھی ادیبہ ہوا کرتی تھیں۔ بامحاورہ اور خوبصورت اردو میں لکھتی تھیں۔ ظاہر ہے یہاں ساحرہ کے معنے مجازی تھے۔ یاد آیا، بہت پرانی بات ہے، ایک دینی مجلس میں کسی بچّے نے بہت ہی خوبصورت تلاوت کی۔ میں نے کہہ دیا کہ اس بچے نے تو سحر طاری کر دیا۔ ایک بزرگ نے استغفار پڑھا اور بڑی سرزنش کی ، کہا کہ سحر شیطانی عمل ہے، تلاوت کی تعریف کیلئے استعمال نہیں ہو سکتا۔ عرض کیا، فلاں کتاب۔ (شاید آغا شورش کی تھی) میں لکھا ہے کہ مولانا عطاء اللہ شاہ بخاری جب وعظ کرتے تو لوگوں پر سحر طاری ہو جاتا یا لوگ سحر زدہ ہو جاتے۔ یہ تو مجازی استعمال ہے۔ اس پر وہ کچھ تامّل میں آئے اور کہا کہ، پھر بھی، تلاوت کے معاملے میں احتیاط چاہیے۔ بہرحال، علمائے دین کی رائے صائب ہو گی کہ مجازی معنوں میں سحر کا لفظ ایسے موقع پر استعمال ہو سکتا ہے کہ نہیں۔ 
خیر، اب حافظ نعیم الرحمن جماعت کے امیر بنے ہوئے ہیں تو بعض حلقے امید کر رہے ہیں کہ شاید جماعت اپنی نظریاتی اساس کی طرف لوٹ جائے۔ قاضی حسین احمد مرحوم نے جماعت کو استحصالی ایلیٹ کلاس کی باندی بنا کر رکھ دیا تھا، اس کھونٹے سے خود کو چھڑانا اتنا آسان بھی نہیں ہے۔ 
______
مرشدانی ساحرانی کی جماعت کا نام کسی ستم ظریف نے تحریک گولڈ سمتھ رکھ دیا ہے۔ یہ نام ایک ٹویٹ میں دیکھا اور صاحب ٹویٹ کو داد دی خبر ہے کہ مرشدانی ساحرانی جیل میں تنگ ہیں، فرماتی ہیں چھت سے چوہے ٹپکتے ہیں۔ ایسا تو پہلی بار سنا کہ چوہے بلوں سے نکلنے کے بجائے چھت سے نزول فرما کر نیچے کوندا پھاندی کرتے ہیں جس کی وجہ سے مرشدانی ساحرانی کا ارتکاز مراقبہ متاثر و مجروح ہوتا ہے۔ جیل حکام کو اس سنگین مسئلے کی تحقیقات کرانی چاہیے۔ ویسے یہ تحقیقات جیل حکام کے بس کی بات نہیں، انہیں روحانی ماہرین کی خدمات لینا پڑیں گی کیونکہ معاملہ عام چوہوں کا نہیں، چھت سے فرش پر ھبوت کرنے والی مخلوق کا ہے، کہیں کوئی روحانی چلّہ تو نہیں پلٹ گیا کہ اس کی وجہ سے موکل اور پیر نکل بھاگے اور چوہے بن کر چھت میں جا گھسے۔ 
ادھر مرشدانی ساحرانی کے خاوند نامدار نے پارٹی کے مفرور رہنمائوں سے کہا ہے کہ مفروری ختم کریں اور گرفتاری دیں۔ سلیس ترجمہ اس ہدایت کا یہ ہے کہ نیک بختو، میں اندر ہوں تو تم باہر کیوں ہو، تم بھی اندر آ جائو۔ ہمہ یاراں بنی گالہ تو ہمہ یاراں اڈیالہ! 
مفرورین میں جانشین اوّل مراد سعید کا معاملہ دلچسپ ہے۔ کے پی میں پی ٹی آئی کی حکومت ہے، وہ پھر بھی مفرور ہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ گنڈاپور کے بارے میں مشہور باتوں پر یقین کر بیٹھے کہ ڈبل ایجنٹ ہیں، اسٹیبلشمنٹ کے مہرے ہیں، مجھے بھی پکڑوا کر دام کھرے کر لیں گے، نمبر بنا لیں گے، اسی لئے بدستور پردہ غیابت میں مستور ہیں۔

مزیدخبریں