مصیبتیں برداشت کرتے، بھوکے پیاسے، خون بہاتے پاکستان پہنچے:    رفیق احمد  

ملتان(ظفر اقبال سے )ریڈ کلف سرحد ی کمشن نے آسام ‘ بنگال اور پنجاب کی مسلم ہندو اکثریت کے مطابق تقسیم کا کام مکمل کے رپورٹ 12 اگست کو لارڈ مائونٹ بیٹن کو بھجوا دی تھی ۔ رپورٹ آتے ہی فسادات پھوٹ پڑے اور مسلمانوں نے اس تقسیم کو مسترد کر دیا  پاکستان آنیوالے اسی لاکھ لوگوں کی آباد کاری کیلئے قائد اعظم محمد علی جناح تمام کوششیں بروئے کار لائے ۔  رفیق احمد نے نوائے وقت کے مقبول ترین سلسلہ ’’ ہم نے پاکستان بنتے دیکھا‘‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ  ہم خاندان کے بیس بائیس افراد تھے انڈیا کی ریاست کرنال ‘کے رہنے والے تھے ۔ میری عمر نو یا دس برس کی تھی ۔ پاکستان کی آزادی کی تحریک کے دوران  جو مار دھاڑ اور قتل و غارت کا بازار گرم ہوا ‘ ماضی میں نہ تو اس کی تاریخ ملتی ہے اور نہ کوئی مثال ۔ کہنے لگے اسی آزادی کی تحریک کے دوران میرے چچا شیر دین شہید ہوئے ‘ جس کے دو بچوں کی شادی ہوئی تو انہوں نے ایک ہندو سے بارہ ہزار روپے ادھار لیے کہ زندگی اجیرن ہوگئی ہے ۔ ریاست کی طرف سے بھیجے گئے ٹرک ہر دوران ہجرت جونہی سوار ہوئے تو ٹرک کو ہندو اور اس کے ساتھیوں نے زبردستی روک لیا اور چچا شیر دین کو قرض کے عوض اتار دیا گیا ۔ میرے والد صاحب رفیق احمد نے ہندو سے مذاکرات کئے اور وہ جانور جو گھر میں ہم چھوڑ کر خالی ہاتھ آئے تھے قرض کے بدلے میں اس ہندو کے نام کر دیئے ۔ تب جا کر کہیں میرے چچا شیر دین کو چھوڑا گیا ۔ کہنے لگے کہ ٹرک سے اتر کر ہم مال گاڑی پر بیٹھ گئے ۔ مال گاڑی ابھی روانہ نہیں ہوئی تھی کہ اس کے ڈبے کاٹ کر قتل و غارت شروع کر دی گئی ۔ بڑی مشکل سے بھوکے پیاسے پنڈی پہنچے ۔ کچھ دن قیام کے بعد مظفر گڑھ اور کوٹ ادو اور پھر دائرہ دین پناہ پہنچے۔ شدید ترین گرمی ‘ اگست کا مہینہ تھا ‘ حکومت کی طرف سے جو راشن ملتا تھا وہ برائے نام تھا ‘ برتن نام کی کوئی چیز ہمارے پاس نہیں تھی ۔ چاول قمیض کے پلو میں ڈال کر کھاتے ۔ نہر کا پانی پیتے ‘ گوبر کے اویلے اکٹھے کر کے آگ جلاتے اور کچھ نہ کچھ پکا لیتے ۔ کہتے ہیں کہ میرے ننھیال ابھی تک وہیں انڈیا میں آباد ہیں ‘ 1954 ء میں میری والد کی وفات ہوئی تب تک ان سے خط و کتابت ہوتی رہی ۔انہوں نے کہا کہ بے پناہ قربانیاں دے کر ملک حاصل کیا آزادی ملی مگر ترقی اور خوشحالی نہ آ سکی۔ 

ای پیپر دی نیشن