سپریم کورٹ نےمیموسےمتعلق درخواستیں قابل سماعت قراردیدیں. ملکی سلامتی کےپیش نظرمیمو کی تحقیقات ضروری ہیں. چیف جسٹس

چیف جسٹس افتخارمحمد چودھری کی سربراہی میںسپریم کورٹ کے نورکنی بینچ نے میمو گیٹ اسکینڈل کے خلاف نواز شریف سمیت دیگر فریقین کی درخواستوں کی سماعت کی۔ فریقین کے دلائل مکمل ہونے کے بعد عدالت نے مختصرفیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ وفاق، آرمی چیف، ڈی جی آئی ایس آئی ، حسین حقانی اور منصور اعجاز نے جواب داخل کرایا ، جبکہ صدر نے اپنا جواب داخل نہیں کیا ، عدالت نے اپنے مختصر فیصلے میںنوازشریف سمیت تمام فریقین کی درخواستیں قابل سماعت قرار دیتے ہوئے سماعت کیلئے منظور کر لی ہیں ۔عدالت نے میمو کیس کی تحقیقات کیلئے کمیشن کے قیام کا اعلان بھی کیا جو بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائزعیسٰی کی سربراہی میں تحقیات کرے گا۔کمیشن میںجسٹس قاضی فائز عیسی ٰکے علاوہ جسٹس اقبال حمیدالرحمن اورجسٹس مشیر عالم جبکہ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج اسلام آباد جواد عباس کمیشن کے سیکرٹری ہونگے۔ عدالت نے فیصلے میں کہا ہے کہ صوبائی چیف سیکرٹریز اور برطانیہ میں پاکستانی ہائی کمیشن تحقیقاتی کمیشن کی معاونت کرنے کے پابند ہوں گے، عدالت نے مزید کہا ہے کہ کمیشن ایڈووکیٹس اور فرانزک ماہرین کی خدمات لے سکتا ہے۔ عدالت نے کمیشن کو مکمل چھان بین کر کے چار ہفتوں میں عدالت کو آگاہ کرنے کی ہدایت کی ہے۔ فیصلے سے قبل سماعت کے دوران تمام فریقین نے دلائل دیئے ۔ نوازشریف کے وکیل رشیداے رضوی نے اپنے دلائل میںکہا کہ ان کی درخواست کسی فرد واحد کےخلاف نہیں۔ آرٹیکل ایک سو چوراسی تین کے تحت کارروائی کسی مجسٹریٹ،کمیشن یا کمیٹی سے بہتر ہوگی۔چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ آرٹیکل ایک سو چوراسی تین مخالفانہ کارروائی ہے یا حقائق جاننے کی کوشش؟ بنیادی حقوق ریاست نافذ کرتی ہے، ریاست بنیادی حقوق سلب کرے تو عدالت اسے ہدایت دے سکتی ہے۔اسحاق ڈارنے اپنے دلائل میں مزید کہا کہ اکیس نومبر کو وزیراعظم کو میمو سے متعلق خط لکھا لیکن مثبت جواب نہ ملنے پر انہوں نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔

ای پیپر دی نیشن