گذشتہ دنوں ایوان کارکنان تحریک پاکستان ورکرز ٹرسٹ کے شعبہ خواتین کے مادر ملت ریسورس سنٹر کے لیکچرز سیریز بسلسلہ 136واں جشن ولادت محمد علی جناح میں مجھے قائداعظمؒ کے تصور جمہوریت پر لب کشائی کا موقع ملا۔ میں چیئرمین ٹرسٹ جناب مجید نظامی کی شکرگزار ہوں کہ ان کی دلچسپی و خواہش سے خواتین کو بھی متحرک کیا جاتا ہے۔ میں سمجھتی ہوں کہ اس عظیم مقصد و مساعی کے حامل ٹرسٹ کے شعبہ خواتین کو منظم ہونے کے لئے خواتین کی اکیڈمک خودمختاری و مالی معاونت بھی درکار ہے تاکہ مادر ملت ریسورس سنٹر کے عملی سٹرکچر کو مربوط کیا جائے۔
قائداعظم محمد علی جناحؒ کے تصور جمہوریت کے حوالے سے میرے لیکچر میں گورنمنٹ پوسٹ گریجوایٹ وحدت روڈ گرلز کالج لاہور، سپیرئر یونیورسٹی، لاہور یونیورسٹی فار مینجمنٹ سائنسز (LUMS) اور قربان ڈگری کالج لاہور کی کثیر طالبات نے شرکت کی۔ یونیورسٹیز سے بوائے سٹوڈنٹس کی بھی اچھی خاصی تعداد موجود تھی۔ اسلامیہ کالج کوپر روڈ کی پرنسپل پروفیسر فرزانہ شاہین اور ڈاکٹر پروین خاں سمیت مذکورہ بالا کالجز کی خواتین اساتذہ کی بھی بھرپور شرکت تھی جو کہ مادر ملت ریسورس سنٹر کی آبادکاری کے لئے نہایت خوش آئند ثابت ہوئی۔ اس سلسلے کو مزید آگے بڑھانے کے لئے کام جاری رکھنا ہو گا۔
جہاں تک قائداعظم محمد علی جناح کے تصور جمہوریت کا تعلق ہے تو یقیناکسی شک و شبہ سے بالاتر ہو کر ہمیں یہ بات ماننا پڑتی ہے کہ قائداعظم فطرتاً جمہوریت کے قائل تھے۔ آپ نے فرمایا کہ ”ہم پاکستان کو ایک جدید، فلاحی، اسلامی اور جمہوری ریاست بنائیں گے“ قائداعظم محمد علی جناح نے ہمیشہ اس بات پر زور دیا کہ ہم ایک ایسی ریاست تشکیل دیں جو معاشرتی فلاح و بہبود اور عوام کی بہتری کی ضامن ہو۔ جس جمہوریت کا تصور قائداعظم محمد علی جناح نے ہمیں دیا تھا وہ تو تصور سترہویں صدی کے عظیم ماہر سیاسیات و فلاسفر جیفرسن کی تائید کرتا ہے کہ ”حکومت عوام سے، عوام کی اور عوام کے لئے ہو۔ قائداعظم محمد علی جناح نے بحیثیت پہلے گورنر جنرل مارچ 1948ءمیں پشاور میں طلبا سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا ”میں پاکستان کو اسلامی اصولوں کی تجربہ گاہ دیکھنا چاہتا ہوں جس میں انصاف، مساوات اور جمہوری روایات کا بول بالا ہو تاکہ ملوکیت و آمریت کے مارے دوسرے ملکوں کے عوام ہماری مثالی سٹیٹ سے فائدہ اٹھا سکیں شاید یہی وجہ تھی کہ پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی ہی میں پاکستان کا نام ”اسلامی جمہوریہ پاکستان“ طے ہو گیا۔ میں سمجھتی ہوں کہ پاکستان کی بنیاد ہی برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کے جمہوری حقوق کی پاسداری و بازیابی کے لئے ڈالی گئی۔ اس لئے قائداعظم محمد علی جناح نے 21 نومبر 1945ءمیں فرنٹیئر مسلم لیگ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا
”مسلمان پاکستان کا مطالبہ اس لئے کرتے ہیں کہ وہ خود اپنے ضابطہ حیات، تہذیبی ارتقا اور اسلامی قانون کے مطابق حکمرانی کر سکیں۔ ہمارا دین، ہماری تہذیب اور ہمارے اسلامی تصورات وہ اصل طاقت ہیں جو ہمیں آزادی حاصل کرنے کے لئے متحرک رکھتے ہیں“ پھر قائداعظم محمد علی جناح نے اسلامیہ کالج پشاور کے طلبا سے خطاب میں فرمایا ”لیگ ہندوستان کے ان حصوں میں آزاد ریاستوں کے قیام کی علمبردار ہے جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں تاکہ اسلامی قانون کے مطابق حکومت قائم ہو سکے۔ قائداعظم محمد علی جناح نے 24 اپریل 1943ءکو نوجوانوں کے ایک وفد سے ملاقات کے دوران فرمایا کہ ”ہمیں اپنے جزوی مفادات و باہمی رقابتوں کو ترک کرنا چاہئے۔ اب یہ ضروری ہے کہ ہم مسلمان چھوٹی چھوٹی باتوں، معمولی معمولی جھگڑوں اور قبائلی خیالات کو چھوڑ کر اسلامی و فلاحی ریاست میں سمو کر اپنی ایک پہچان بنائیں۔ میرے ذہن میں کوئی شک نہیں کہ ہم میں سے زیادہ تر لوگ عوام الناس کی حکومت کا تصور رکھتے ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ پاکستان میں عوام کی حکومت ہو“ قائداعظم محمد علی جناح کے فرمودات و تصورات یقیناً مسلمانوں کو ایک اسلامی اور جمہوری ریاست کی نوید دیتے رہے اور ان کے تصور میں عوامی فلاحی ریاست ہی جمہوری تقاضوں کی آئینہ دار ہو سکتی ہے۔اب 2012ءکا سورج غروب ہو رہا ہے اور 2013ءکا نیا آفتاب اپنی آب و تاب سے چمکنے کو ہے۔ ہمیں ریاستی سیاست میں کئی مسائل ورثے میں ملے تاہم بیشتر جمہوری عوامل و مسائل ہمارے اپنے پروردہ بھی ہیں۔ پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ ہم 66 سالہ اسلامی، فلاحی اور جمہوری ریاست کو تصور قائدکے سانچے میں ڈھال نہ سکے۔ 32 سالہ حیات پاکستان آمروں کے مارشل لاءکی نذر ہوئی جبکہ باقی 34 سال نیم مارشل لاءو غیر جمہوری سول حکومتوں نے اقتدار کے مزے لوٹے۔ صد افسوس کہ قائداعظم کے تصور کی عوامی فلاحی ریاست آج بھی تلاش راہ میں منتظرِ جمہور ہے۔ ہمیں دیکھنا چاہئے کہ ہمارے اقبالؒ و قائدؒ کا، عوام کا یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کیا چند مفاد پرست و جاہ پسند افراد کی شکارگاہ تو نہیں بن گیا؟ کیا آج 2013ءکا سورج کرپشن، لوڈشیڈنگ، مہنگائی، خودکشیاں اور لوٹ کھسوٹ کے جمہوری تحفے عوام کی جھولی میں ڈال کر طلوع نہیں ہونے کو؟ کیا اسلامی جمہوریہ پاکستان کے تصور قائد کو ہمارے اقتدار کے متوالوں نے پامال نہیں کیا کہ جب وہ ملک آئے تو حکومت کرنے کے لئے عوام کے خزانوں کو بے دردی سے کھانے کے لئے اور پھر حکومتیں ختم ہو جائیں تو ملک سے باہر بیٹھ کر دوبارہ حکومت ملنے کے خواب دیکھیں؟ ایسے اقتدار نشینوں نے سلطانی¿ جمہور کے تقدس کو پامال کیا اور نوبت عوام کے فاقوں و اقتصادی قتل تک آ گئی۔ آج ہماری صنعتیں بند ہو جانے سے کروڑوں خاندانوں کے چولہے بجھ گئے ہیں۔ ملک کے ترقیاتی میگاپروجیکٹس کے نامکمل رہ جانے سے زراعت دم توڑ رہی ہے اور سونا اگلتی زمین بنجر ہونے کو ہے جس سے اربوں کے زرعی زرمبادلہ کو جھٹکا لگا ہے جس سے ملک میں بھی افلاس کا ریشو اور بڑھنے کاخدشہ ہے۔ ہر روز 5 ارب کے کرپشن سے ہماری ملکی معاشی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ چکی ہے اور سسٹم نابود ہو گیا ہے۔ قرضوں و امدادوں و غیر ملکی ڈالروں سے ہم نے عوام کے گلوں کو لپیٹ رکھا ہے۔ کیا یہ 2013ءکے نئے سورج کے جمہوری تحفے ہیں؟ کیا عوامی حکومتیں ایسی ہوتی ہیں؟ ہم جیسے عوامی لوگ آج 2013ءکے چڑھتے سورج کو دیکھ کر اپنے قائد کو پکار کر یہی کہہ سکتے ہیں کہ....
میں وہ محروم کہ پایا نہ زمانہ تیرا
تو وہ خوش بخت کہ جو میرے زمانے میں نہیں