سن 2012ءکے دسمبر کے آخری عشرے میں جہاں ایک طرف بے نظیر بھٹو کی پانچویں برسی پر لوگ چلے جانے والوں کے دکھ میں ڈوبے ہوئے تھے اور اسی آخری عشرے میں بشیر بلور بھی پشاور میں دہشت گردی کا نشانہ بن کر اس جہانِ فانی سے کوچ کر گئے، ان کے حوالے سے بھی سیاسی اور عوامی حلقے خاصے پریشان تھے، تو دوسری جانب جماعت اسلامی کے نائب امیر پروفیسر غفور احمد بھی خالق حقیقی سے جا ملے۔
اس دفعہ دسمبر جاتے جاتے پھر اداس کر گیا۔ سن 2007ءاور سن 2012ءکے دسمبر سے حکمرانوں اور سیاستدانوں کو بہت کچھ سیکھنا چاہئے۔ ویسے تو ہر دسمبر کا 25واں دن ہمیں سکھانے اور سمجھانے آتا ہے۔ یہ 25 دسمبر قائداعظم محمد علی جناح کی یاد دلاتا ہے۔ وہ جناح جس نے عزم، تدبر، دلیل اور نظریہ کی طاقت سے ہندو اور انگریز پر فتح حاصل کی۔ جب سے ہم نے توحید و سُنت اور نظریہ پاکستان کو خدا حافظ کہا ہے تب سے سیاسی اور حکومتی پلیٹ فارم پر بناو¿ نے بھی ہمیں اللہ حافظ کہہ دیا ہے۔ ویسے تو تاریخ کا ایک ایک لمحہ استاد اور کتاب ہوتا ہے لیکن بڑے بڑے رہنماو¿ں کے بچھڑے جانے اور بڑی بڑی حکومتوں کے تختے الٹ جانے کے بعد کم از کم موجودہ حکمرانوں اور سیاستدانوں کو بطور خاص سبق سیکھنا چاہئے۔ یہ زندگی چار دن کی ہے اور آخرت کی زندگی ہمیشہ ہمیشہ رہنے والی ہے۔
قارئین کرام! مجھے نہیں معلوم کہ، میں بے نظیر بھٹو، بشیر بلور اور پروفیسر غفور احمد کی کمی محسوس کر رہا ہوں یا اس دسمبر کے آخری عشرے کی اداسیوں کو سینے سے لگائے ہوئے ہوں یا میں مستقبل سے ڈر رہا ہوں کہ جس کی تعمیر ہم قائداعظم کے بناو¿ اور تدبر کو نظر انداز کر کے کر رہے ہیں۔ اسے تاریخ سے سبق حاصل کرنے کا خیال سمجھیں، بے نظیر بھٹو، بشیر بلور اور پروفیسر غفور احمد کے حوالے سے مرثیہ نگاری و نوحہ گری سمجھیں یا کچھ اور ....
آو¿ کہ آج ختم ہوئی داستانِ عشق
اب ختمِ عاشقی کے فسانے سنائیں ہم
عجیب بات ہے کہ، لکھنا کچھ چاہتا تھا لیکن رُخ اور ہی چل نکلا، تو پھر یہی سہی، یعنی پرانے اور نئے سیاستدانوں کی باتیں۔ پروفیسر غفور احمد اُن محترم سیاستدانوں میں شمار ہوتے تھے جن کی باتیں صرف ان کی جماعت کا ”نظم“ ہی غور سے نہیں سُنتا تھا بلکہ پروفیسر غفور کے مخالفین بھی انہیں زیرک اور معاملہ فہم سیاستدان تصور کرتے تھے۔ سن 1950ءسے ان کا تعلق اور سفرجماعت اسلامی سے جُڑا۔ ذوالفقار علی بھٹو، سید مودودی، مولانا مفتی محمود، پیر پگاڑہ، مولانا شاہ احمد نورانی، میاں طفیل محمد، نوابزادہ نصراللہ خان، خان عبدالولی خان، اصغر خان، شیرباز مزاری، نواب اکبر بگٹی اور بیگم نسیم ولی خان و بیگم نصرت بھٹو جیسے سیاستدانوں سے ان کا تعلق واسطہ، مقابلہ اور دوستانہ رہا۔ 1973 کے آئین، یعنی پہلے جامع اور اصلی آئین کی آئین سازی میں ان کا کردار بہت اچھا تھا۔ جب قومی اتحاد کی تحریک اپنے شباب پر تھی اور یہ نوابزادہ نصراللہ خان اور مولانا مفتی محمود کے ہمراہ بھٹو کی ٹیم سے مذاکرات کر رہے تھے تو ایک موقع پر انہوں نے صاف شفاف لفظوں میں کہہ دیا تھا کہ اگر مذاکرات ناکام ہو گئے اور مصلحتوں کو فراموش کر دیا گیا تو ملک و قوم کو مارشل لاءکا سامنا کرنا پڑے گا اور وہی ہوا۔ پھر پروفیسر غفور نے تاریخ میں ایک بہت بڑا سچ رقم کرایا، جس سچ کو ان کے کچھ ”اپنے“ اور ہم عصر بھی نہیں چاہتے تھے۔ ان کا یہ کہنا تھا کہ سب طے ہو گیا تھا، مذاکرات کامیاب بھی ہو گئے تھے لیکن جنرل ضیاالحق مارشل لا لگا کر رہے۔ یعنی پروفیسر غفور احمد ان لوگوں میں سے تھے جو جمہوریت کو بند گی سے نکال لانے کے ہُنر اور تدبر سے آشنا تھے لیکن اس وقت کے کچھ ”کُند“ ذہنوں کا خیال تھا کہ ضیائی مارشل لاءکو یقینی جواز پیش کیا جائے کہ یہ مارشل لاءضروری ہو گیا تھا جس کے بغیر کوئی چارہ نہیں تھا۔ اس کا مطلب اس کے علاوہ اور کوئی نہیں بنتا تھا کہ سیاستدانوں کے پاس سیاست رہ گئی تھی نہ جمہوری روایات، بس آمریت ہی زخم کا علاج تھی۔ اگر وقت ملے تو نوجوان اور ”جوان“ سیاستدانوں کو پروفیسر غفور احمد کی تصانیف سے بھی کچھ سیکھ لینا چاہئے۔ شاعر نے بھی کیا خوب یاد دلایا کہ ....
اُس جانِ جہاں کو بھی یونہی قلب و نظر نے
ہنس ہنس کے صدا دی، کبھی رو رو کے پکارا
واپس آتے ہیں حالیہ سیاست کی طرف، پہلے یہ بات معروف تھی کہ، امریکہ کی جنگ کو پاکستان اپنے آنگن میں لے آیا اور اب یہ جملہ کچھ اس طرح کا ہو گیا ہے کہ ”امریکی جنگ کو پاکستان اپنے آنگن میں لے آیا اور اے این پی اس کو باچا خان کے صحنِ سیاست تک لے آئی“ اس ضمن میں محض اتنا ہی کہنا ہے کہ، جب تک تعصبات کو بالائے طاق رکھ کر عقل کا استعمال عمل میں نہیں لایا جاتا تب تک دہشت گردی اور افراتفری سے چھٹکارہ ممکن نہیں۔ تعصب اور عقل کی سنگت اس مسئلہ کو حل تک نہیں پہنحنے دے گی لہٰذا مل بیٹھ کر ”را‘، موساد، اور سی آئی اے“ کے علاوہ میر جعفروں اور میر صادقوں سے جان چھڑائیں۔
حالیہ سیاست کی تازگی میں بلاول بھٹو زرداری کو بھی 27 دسمبر کو میدان سیاست میں گھسیٹ لیا گیا ہے۔ میرے احباب کی بحث و تمحیص آج کل یہ ہے کہ بلاول نے اپنی اننگ کی اوپننگ میں عدلیہ اور فوج کے حوالے سے یہ کہا اور وہ کہا۔ میرے نزدیک اس کا یہ وہ کہنا اتنا قابل غور نہیں۔ اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں۔ بات یہ ہے کہ کیا واقعی ملک و قوم میں قیادت کا قحط الرجال ہے کہ، میاں نواز شریف، میاں شہباز شریف، حمزہ شہباز و مریم نواز شریف کے بغیر نہیں چل سکتے، ایسے ہی جیسے چودھری شجاعت حسین پرویز الٰہی کے بغیر اور پرویز الٰہی مونس الٰہی کے بغیر نامکمل ہیں۔ ان چیزوں سے یہی لگتا ہے کہ سیاست کی یہ شب خدا خدا کر کے ہی کاٹی جائے گی۔ یہاں زرداری صاحب کے حوالے سے مجھے ایک بات یاد آ گئی کہ بے نظیر بھٹو کے اس جہان سے الوداع ہو جانے کے بعد میری جنرل (ر) حمید گل سے بات ہو رہی تھی تو انہوں نے کہا ”زرداری صاحب نے آئرن لیڈی کے ساتھ رہ کر بہت کچھ سیکھ لیا ہے، پھر پابندِ سلاسل رہ کر بھی بہت کچھ پا لیا ہے لہٰذا یہ باصلاحیت ہو گئے ہوں گے“ اب تو یہ عالم ہے کہ ”آئرن لیڈی کی رفاقت اور پس دیوارِ زنداں سے سیکھنے کے علاوہ زرداری صاحب نے مصلحتی صدارت اور ایوان صدر سے بھی تو کچھ سیکھا ہو گا ....مگر کیا؟ چاہئے تو یہ تھا کہ وہ صدارت کے بجائے سیاست اور پی پی پی کی چیئرمینی سنبھالتے، اپنے تجربے کو بروئے کار لاتے لیکن افسوس کہ انہوں نے قحط الرجالی کی جلتی ہوئی آگ پر تیل چھڑکنے کے علاوہ کچھ نہیں کیا ....آہ! یہ موروثی سیاست! جب سیاست موروثی چکروں میں پھنس کر رہ جاتی ہے تو شہادتیں بھی ضائع چلی جاتی ہیں اور جلاوطنیاں بھی! اور ملک و ملت کے لئے پھر نئے گرداب شروع ہو جاتے ہیں۔ جمہوریت کسی موروثیت کا نام نہیں ہو سکتی بے شک معاملہ بھٹووں اور زرداریوں کا ہو یا ولی خانوں اور محمود مفتیوں یا شریفوں کا! ہاں یہ بھی.... سمجھو کہ جاتا ہوا دسمبر کچھ کہہ گیا ہے۔ علاوہ بریں .... ع
پھر حشر کے ساماں ہوئے ایوان ہوس میں