پاکستان کی صنعتی شرخ نموسات فیصد سے کم ہوکر تین فیصد پر آ گئی جس کا مطلب ہے کہ ساٹھ فیصد پیداواری یونٹس بند ہیں سردیوں میں تو ویسے بھی بجلی کی طلب گرمیوں کی نسبت بہت کم ہو جاتی ہے لیکن بدقسمتی سے انرجی بحران کا فی الحال کوئی حل نظر نہیں آ رہا۔
انرجی بحران پر پورے پنجاب کی انڈسٹری اور پیداواری یونٹس سراپا احتجاج ہیں اور اس احتجاج کا اظہار وہ فیڈریشن آفی چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری، اپٹما اور لاہور چیمبر آف کامرس کے علاوہ تمام کاروباری ایسوسی ایشنوں اور تنظیموں کے ذریعہ سے ریکارڈ کرا رہے ہیں۔ کیونکہ ساٹھ لاکھ کے قریب ملازم بے کار ہو گئے۔ برآمدی آرڈ کینسل ہونے سے پاکستانی کمپنیوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔ جب سے یورپی یونین نے پاکستانی ٹیکسٹائل کو رعایتیں دینے کا اعلان کیا ہے تب سے کوئی غیبی ہاتھ ٹیکسٹائل انڈسٹری کا پہیہ جام کرنے کی کوشش میں ہے۔ حیرت ہے احمد مختار کے رویہ پر کہ جو کام وہ جمعہ کے روز کر سکتے تھے وہ انہوں نے دو دن کی چھٹیوں کے بعد پیر کے دن پر ڈال دیا۔ دوسری طرف امریکہ نے رکی ہوئی امدادی رقم کا 668 ملین ڈالر کا چیک بھجوا دیا اس میں سے 180 ملین ڈالر عالمی مالیاتی اداروں کو فراہم کرنے کے بچتی معقول رقم بھیجی ہے جس سے اور سرکاری بجلی گھروں کو تیل فراہم کرکے فوری بجلی حاصل کی جا سکتی ہے۔ کچھ ایسا لگتا ہے کہ حکومت نے پیر کے روز ہونے والی میٹنگ میں بجلی کے بحران کو ختم کرنے کے لئے کسی مثبت پیش رفت کا اعلان تو کر دیا ہے لیکن یہی اعلان اگر جمعہ کو ہو جاتا جس کے نتیجہ میں کارخانوں کو بجلی اور گیس مل جاتی تو کم از کم اتنی شدید سردی میں ساٹھ لاکھ مزدوروں کو مہنگائی کے ساتھ ساتھ کم از کم ایک وقت کے فاقے کا سامنا تو نہ کرنا پڑتا دیہاڑی دار مزدور کی حالت تو اور بھی ابتر ہے کیونکہ اس نے جو کمانا ہے وہی کھانا ہے اس لئے وفاقی حکومت پنجاب سے سیاسی انتقال لینے کا سلسلہ بند کرے۔ چار ماہ بعد انتخابات ہونے کی توقع ہے اس لئے حکومت اور اس کی شریک جماعتیں کچھ تو سوچیں کہ انہوں نے صرف دھاندلی ہو گی ”دھاندلی ہوگی“ کا نعرہ لگانا ہے۔