کیپٹن غنی نے ان نہتے بنگالی فوجیوں کے ساتھ ایسٹ پاکستان رجمنٹ کی بنیاد رکھی۔ ان صاحب کو شروع سے فوجی امور کی نسبت سیاست سے زیادہ دلچسپی تھی ۔چنانچہ یہی صاحب تھے جنہوں نے شروع میںبنگالی فوجیوں میں مرکز گریزی کا بیج بویا اور بعد میں ایوبی دور میں یہ میجر غنی ایم این اے کے طورپر مشہور ہوئے ۔ قدرت کی ستم ظریفی دیکھئے کہ ان بنگالی فوجیوں کو ہندوﺅں نے قیام پاکستان پر تو غیر مسلح کر کے بھیجا لیکن 1971ءمیں اسی ایسٹ پاکستان رجمنٹ کی بھگوڑا یونٹوں کو پاکستان کے خلاف لڑنے کے لئے انہی ہندوﺅں نے کیل کانٹے سے اچھی طرح لیس کر کے واپس ڈھاکہ بھیج دیا۔
ان دنوں مشرقی پنجاب اور دلی میں مسلمانوں کی منظم نسل کشی کی جا رہی تھی جس کے نتیجے میں مغربی پاکستان میں لاکھوں بے خانماں مہاجروں کی آبادکاری کا مشکل مسئلہ پیدا ہو گیا تھا۔قائد اعظم نے مہاجرین کی آبادکاری کے لیے چندہ کی اپیل کی تو میں نے وہاںسات آٹھ سو فوجیوں سے چندہ جمع کیا۔ تمام جوانوں نے ایک ماہ کی تنخواہ چندے میں دے دی افسروں نے ایک سو روپیہ فی کس دیا حتیٰ کہ انگریز GOCجنرل بی ایس مولڈ نے بھی ایک سو روپیہ دیا لیکن ایک بنگالی کپتان خانصور نے انکار کر دیا یہ صاحب مغربی بنگا ل سے جان بچا کر از خود ہی بھاگ آئے تھے لیکن چندہ مانگنے پر پاکستان کو برا بھلا کہتے ہوئے فرمایا کہ پاکستان کی وجہ سے ان کا تابناک مستقبل تاریک ہو گیا ہے۔ اس پر انگریز GOCنے اس کو واپس کلکتہ بھیجنے کا آرڈر دے دیاتو یہ دفتر میں ہی زاروقطار رونے لگ گیا۔ بعد میں اس نے اپنی ٹرانسفر مغربی پاکستان کروالی جہاں سے اعلیٰ تعلیم کے لئے ولائت بھیج دیا گیا۔ لیکن برٹش ملٹری ادارے نے تین ماہ کے بعد اسے غیر معیاری اور نالائق قرار دے کر واپس پاکستان بھیج دیا۔ یہاں پر اپنی واپسی کے لئے اس کو باوجود تلاش کے کسی پنجابی سازش کا سراغ نہیں مل سکا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بنگالی مسلمان جنہوں نے 1946ءکے انتخابات میں سو فیصد ووٹ پاکستان کو دئیے تھے پاکستان بننے سے بھی مہینہ بھر پہلے کس طرح پاکستان گریزبن گئے۔ اس کا تجربہ تو تاریخ دان اور اسکالر ہی کر سکیں گے۔ لیکن جوبات مجھ جیسے عام شہری کو نظر آتی ہے وہ یہ ہے کہ 3جو ن کا اعلان پاکستان کے قریب قریب یعنی قیام پاکستان کے سلسلے میں ہونے والے مذاکرات کے دوران بنگال کے موثر ہندو اقلیت نے ایک طرف تو جناب سہروردی کو آزاد بنگال کا عظیم لیڈر بنا کر جال میں پھنسایا اور دوسری طرف زبردست پروپیگینڈہ مہم چلائی کہ متحدہ بنگال سے علیحدہ ہونے پر مشرقی بنگال میں پنجابی چھا جائیں گے۔ بہر حال ایک طرف مشرق میں ہندو لیڈر شپ پاکستان کو پیدائش سے قبل ہی مار دینے کی سازش کر رہی تھی تو دوسری طرف مغرب میں مسلمان ہندوﺅں کی چھوڑی ہوئی جائیداد کی لوٹ کھسوٹ میں مصروف تھے۔ چنانچہ روز اوّل سے ہی قومی تشخص ابھارنے کے سلسلے میں غفلت کا مظاہرہ ہوا اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ نہ صرف ہمارے بچے اب برصغیر کی تقسیم کی وجوہات سے نا آشنا ہیں بلکہ ہمارے بعض NGOقسم کی خواتین و حضرات کی طرف سے موقع ملنے پر ہندو مسلم بھائی بھائی کے نعرے لگتے ہیں۔ مسلمانوں کو تلک لگائے جاتے ہیں اور راکھیا ں باندھی جاتی ہیں اور بسنت کے ہندو تہوار کو سرکاری طور پر منایا جاتا ہے۔ ان حالات میں پاکستان کے بعض لوگ انتہائی مایوسی کا شکار ہیں۔
سوال یہ پید ا ہوتا ہے کہ پاکستان کی مختلف حکومتوں اور لیڈر شپ نے قوم کو پاکستانی تشخص سے روشناس کرنے کے لئے اقدام کیوں نہیں کئے تعلیم کا میدان زیادہ تر عیسائی مشنریوں کے حوالے کر دیا اور جو بچ گیا اسے بائیں بازو کے دانشوروں نے سنبھال لیا۔ سرکاری ذرائع ابلاغ اکثر و بیشتر غیر ملکی نظریات کے علمبردار ٹولہ کی آماجگاہ نبے رہے اس طرح موجودہ نسل اگر قومی تشخص سے بے بہرہ ہے تو اس کی تمام تر ذمہ داری پاکستان بنانے والی نسل پر عائد ہوتی ہے۔ زندہ قومیں قومی تشخص کو زندہ رکھنے کے لئے مسلسل جدوجہد کرتی ہیں۔(ختم شد)
مشرقی پاکستان کے زوال کا آنکھوں دیکھا حال ....(آخری قسط)
Dec 30, 2012