اذان کے خوبصورت اور دل آویز الفاظ اپنے اندر کیا پیغام رکھتے ہیں، اور اپنے ماننے والوں سے کیا تقاضا کرتے ہیں۔ حجة الاسلام امام غزالی رحمة اللہ علیہ ارشادفرماتے ہیں:۔
”جان لو پہلی چیز جو تم تک پہنچی ہے وہ نماز کی اذان ہے۔ چاہے کہ جونہی یہ آواز کان میں پڑے فی الفور دل سے اس کی طرف متوجہ ہوجائے اور جس کام میں مشغول ہو اس سے ہاتھ اٹھا لے، اسلاف کا یہی انداز رہا ہے، جب وہ اذان کی آواز سنتے تھے تو ان میں سے جو لوہار ہوتا، وہ اوپر اٹھایا ہوا، ہتھوڑا نیچے ڈال دیتا۔ (یعنی ضرب نہ لگاتا) اور جو گفش گر ہوتا وہ بھی چمڑا سینے سے ایک دم رک جاتا اور اپنی جگہ سے جنبش تک نہ کرتا وہ لوگ اس منادی کو سن کر روز قیامت کی ندا کو یاد کرتے تھے اور یوں سمجھتے تھے کہ جو شخص اس حکم کو سن کر اس کی تعمیل کے لیے جلدی کرتا ہے، اسے روز قیامت کی منادی سوائے بشارت کے اور کچھ معلوم نہ ہوگی یعنی اس تک بشارت اور خوشخبری بن کر پہنچے گی اب اگر ایسا ہے کہ اس کو سن کرتیرا دل خوشی سے اس کی طرف راغب ہو جاتا ہے تو سمجھ لے کہ روز قیامت کی منادی کو سن کر بھی تو اسی طرح شاداں فرماں ہوگا“۔ (کیمیائے سعادت)
حضرت شاہ ولی اللہ رحمة اللہ علیہ رقم طراز ہیں:۔
اذان کی فضیلت کا فلسفہ یہ ہے وہ شعائر اسلام سے ہے اور داراسلام اسی سے پہچانا جاتا ہے کہ اس میں جابجا اذان کی آواز سنائی دیتی ہے۔ اسی بناپر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی قوم پر شبِ خون مارنا چاہتے تو پھر پو پھوٹھنے کا انتظار فرماتے اگر کہیں اذان کی آواز سنائی دیتی تو آپ مجاہدین کو حملہ کرنے سے روک دیتے تھے۔ لیکن اگر کوئی اذان سنائی نہ دیتی تو اس قوم پر ہلہ بول دیتے۔ اس کی فضیلت اس پر مبنی ہے کہ وہ دعوت نبوت کی ایک شاخ ہے کیونکہ موذن لوگوں کوایک ایسی عبادت کی طرف بلاتا ہے جو ارکان اسلام میں سب سے بڑارکن ہے، اور وسائل قرب میں اسے پر سب پر فوقیت حاصل ہے۔ وہ تمام نیکیاں جن کے کرنے سے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل ہوتی ہے اور شیطان ناخوش ہوتا ہے۔ان میں سب سے بڑھ کر وہ نیکی ہے جس کا اثر دوسروں تک پہنچتے پھر ان متعدی نیکیوں میں سب سے بڑا درجہ حق کا بول بالا کرنا ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے ”قیامت کے دن موذنوں کی گردنیں سب سے درازہوں گی“ ایک اور حدیث مبارکہ میں ہے۔ ”جس جگہ تک مﺅذن کی آواز پہنچتی ہے، اس دائرہ کے اندر جن وانس یا جتنی چیزیں بھی ہوتی ہیں وہ سب کی سب قیامت کے دن اس کے حق میں گواہی دیتی ہیں اور اللہ تعالیٰ اس کے اتنے گناہوں کو بخش دیتا ہے جو اس دائرہ کے اندر سما سکیں۔ (حجة اللہ البالغہ)