ٹیکس ایمنسٹی سکیم ”مالی این آر او“ ہے مسترد کی جائے۔ قائمہ کمیٹی سینٹ‘ یہ سکیم سونے کی کان ہے چیئرمین ایف بی آر‘ سینٹ کے اجلاس میں یہ سکیم ٹیکس قوانین میں ترمیم کے بل کے طور پر پیش کی گئی مگر ارکان سینٹ نے کہا ہے کہ ایف بی آر کو وسیع اختیارات نہیں دئیے جا سکتے کیونکہ اس سکیم سے یہ پتہ ہی نہیں چل رہا کہ کس طرح نئے ٹیکس گزاروں کو دائرے میں لایاجائے گا۔ سنیٹر اسحاق ڈار نے تو اسے لٹیروں کیلئے ”این آر آو“ کہا ہے جس میں بقول نسرین جلیل کچھ دے دلا کر کالا دھن سفید کیا جا سکے گا۔ جبکہ چیئرمین ایف بی آر اس کی حمایت کرتے ہوئے اسے سونے کی کان کہہ رہے ہیں۔
یہ سکیم ابتدا ہی سے متنازع ثابت ہوچکی ہے کیونکہ یہ صرف مالدار طبقوں کو فائدہ پہنچانے کی خاطر بنائی گئی ہے۔اس کا عوام کو کوئی فائدہ نہیں ہوسکتا اور مخصوص مفاد پرست ٹولہ چند ہزار روپے ٹیکس ادا کر کے کروڑوں کے اثاثے بچائے گا۔ اس طرح تو ایمانداری سے ٹیکس ادا کرنے والوں کی بھی حوصلہ شکنی ہوگی۔
حکومت اور ایف بی آر کو چاہئے کہ وہ پہلے ان 29ملین ٹیکس نادہندگان کیخلاف کارروئی کرے اور انہیں ٹیکس کے دائرے میں لائے اور ٹیکسوں کی وصولی کا کام شفاف طریقے سے انجام دے تاکہ ملک کی معاشی حالات میں بہتری ہو ورنہ صرف ایلیٹ کلاس کو چند ہزار روپے کے عوض کروڑوں کا کالا دھن سفید کرنے کی اجازت دینے سے کسی بھی صورت ٹیکس کی وصولی کی شرح میں نمایاں بہتری نہیں آسکے گی بلکہ اس طرح تو مالی بدعنوانیوں کا سلسلہ مزید دراز ہوتا چلا جائے گا اور مالدار طبقے کو ٹیکسوں کی مد میں مزید مراعات حاصل ہوں گی۔