مسلم لیگ کا یوم تاسیس اور مسلم لیگوں کے اتحاد کے تقاضے ....آج لیگی قائدین سوچیں کہ ملک میں موجود خرابیوں کے وہ خود کتنے ذمہ دار ہیں

مسلم لیگ کا یوم تاسیس اور مسلم لیگوں کے اتحاد کے تقاضے ....آج لیگی قائدین سوچیں کہ ملک میں موجود خرابیوں کے وہ خود کتنے ذمہ دار ہیں

پاکستان کی خالق جماعت مسلم لیگ کا 108واں یوم تاسیس آج 30 دسمبر کو منایا جا رہا ہے۔ اس سلسلہ میں حکمران مسلم لیگ (ن) اور مسلم لیگ کے دیگر دھڑوں کی جانب سے آج الگ الگ تقاریب کا اہتمام کیا جا رہا ہے جبکہ نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے زیر اہتمام آج ایوان کارکنانِ تحریک پاکستان میں مسلم لیگ کے یوم تاسیس پر خصوصی نشست کا اہتمام کیا گیا ہے۔
ڈھاکہ کے مقام شاہ باغ میں نواب وقار الملک کی زیر صدارت 30 دسمبر 1906ءکو برصغیر کے مسلمانوں کے سرکردہ قائدین کے اجلاس میں مسلمانوں کے سیاسی، معاشی، اقتصادی اور مذہبی حقوق کے تحفظ کیلئے آل انڈیا مسلم لیگ کے نام سے مسلمانوں کی نمائندہ جماعت کا قیام عمل میں آیا تھا اور نواب سلیم اللہ خاں اس کے پہلے صدر منتخب ہوئے۔ آل انڈیا مسلم لیگ ایک خاص مشن اور جذبے کے تحت قائم کی گئی جس کا بنیادی مقصد مسلمانوں کو انگریز اور ہندو کے استحصال سے نجات دلا کر بطور اقلیت انکی مذہبی آزادیوں کو یقینی بنانا اور انکے معاشی و اقتصادی حالات بہتر بنا کر انکے تشخص کو تسلیم کرانا تھا۔ اس مشن کی تکمیل اور مقاصد کے حصول کیلئے مولانا محمدعلی جوہر اور مولانا ظفرعلی خان بھی آل انڈیا مسلم لیگ کے پلیٹ فارم پر آ گئے اور دیکھتے ہی دیکھتے آل انڈیا مسلم لیگ نے کانگریس کے مقابلے میں اپنی سیاسی حیثیت اور الگ تشخص تسلیم کرا لیا جبکہ علامہ اقبال کی زیر قیادت آل انڈیا مسلم لیگ میں مسلمانوں کے الگ تشخص کیلئے الگ خطہ¿ ارضی کے حصول کی سوچ کو باقاعدہ تحریک کے قالب میں ڈھالا گیا اور عملی جدوجہد کی خاطر مسلم لیگ کی قیادت کیلئے علامہ اقبال کی نگاہِ دور اندیش نے قائداعظم محمد علی جناح کا انتخاب کیا جو اس وقت برصغیر کے مسلمانوں کے حالات سے مایوس ہو کر مستقل طور پر برطانیہ میں قیام پذیر ہو چکے تھے۔ علامہ اقبال نے انہیں مراسلہ بھجوا کر ہندوستان واپس بلوایا اور انکے سامنے مسلمانوں کے الگ خطہ ارضی کا ایجنڈہ پیش کیا‘ مگر خود علامہ اقبال کی زندگی نے وفا نہ کی اور وہ اس ایجنڈے کے تحت عملی جدوجہد کے آغاز سے قبل ہی 1938ءمیں اس جہانِ فانی سے رخصت ہو گئے جس کے بعد قائداعظم نے مسلم لیگ کی قیادت سنبھالی اور علامہ اقبال کی سوچ اور انکی وضع کردہ گائیڈ لائن کے مطابق عملی جدوجہد کا آغاز کیا۔ نتیجتاً 23 مارچ 1940ءکو منٹوپارک لاہور میں منعقدہ مسلم لیگ کے کنونشن میں قرارداد لاہور منظور کرکے برصغیر کے مسلمانوں کی تائید و حمایت سے قیام پاکستان کی جدوجہد کا باقاعدہ آغاز کیا گیا۔ یہی قرارداد لاہور بعد ازاں قراردادِ پاکستان بنی جس کی روشنی میں قائداعظم کی زیر قیادت شروع ہونیوالی تحریک پاکستان نے صرف سات سال کے عرصہ میں شاطر ہندو قیادت کی سازشوں کا توڑ کرتے ہوئے تشکیل پاکستان کو ممکن بنا دیا۔
برصغیر کے مسلمانوں کا جو جذبہ دو قومی نظریہ کے تحت تحریک پاکستان کے ذریعے تخلیق پاکستان پر منتج ہُوا‘ اگر قیام پاکستان کے بعد وہی جذبہ اور مسلم لیگ کی صفوں میں اتحاد برقرار رہتا تو آج یہ ملکِ خداداد ایک خوشحال‘ ترقی یافتہ اور مستحکم پاکستان کی شکل میں اقوامِ عالم میں بلند اور نمایاں مقام حاصل کر چکا ہوتا۔ بدقسمتی سے قیام پاکستان کے ایک سال بعد ہی قائداعظم کے انتقال سے مسلم لیگ کی صفوں میں اتحاد برقرار نہ رہ سکا اور قائداعظم نے اپنی زندگی میں جن ”کھوٹے سکوں“ کی نشاندہی کی تھی‘ انکی ریشہ دوانیوں اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ گٹھ جوڑ نے پاکستان کی خالق جماعت مسلم لیگ کو ہندو اور انگریز کے ٹوڈی مفاد پرست اور اقتدار پرست طبقات کے ہاتھوں کا کھلونا بنا دیا چنانچہ انکے ہاتھوں مسلم لیگ کا انتشار ہی نظریہ پاکستان کے تصور کے مخالف عناصر کو تقویت پہنچانے کا باعث بنا اور پھر طالع آزما جرنیلوں نے مسلم لیگ کو اپنے آمرانہ اقتدار کو سہارا دینے اور مستحکم بنانے کیلئے استعمال کرنا شروع کر دیا۔ اس جماعت کا یہی المیہ اسکے دھڑوں میں تقسیم ہونے کے باعث آج ہمارا قومی المیہ بن چکا ہے مگر اپنی اپنی اناﺅں کے اسیر مسلم لیگی قائدین نے ملک کے دولخت ہونے اور چار بار فوجی آمریت مسلط ہونے کے واقعات سے ابھی تک کوئی سبق نہیں سیکھا۔
یہ حقیقت ہے کہ تخلیقِ پاکستان کے بعد مسلم لیگ دھڑے بندیوں میں تقسیم نہ ہوتی اور ایک ہی پلیٹ فارم پر متحد رہتی تو بھانت بھانت کی بولیاں بولنے والے مفاد پرست سیاستدانوں کو نظریہ¿ پاکستان کے برعکس اپنی سوچ کو پروان چڑھانے کا کبھی موقع نہ ملتا۔ ملک میں دو جماعتی نظام کے تصور کے تحت جمہوری نظام کے استحکام کی منزل بھی حاصل کر لی جاتی اور ہماری سالمیت کے درپے دشمن کو ہماری کمزوریوں سے فائدہ اٹھانے کا بھی موقع نہ ملتا۔ مگر ملک کی سالمیت کے حوالے سے اتنا کچھ گنوانے کے بعد بھی گروپوں میں تقسیم مسلم لیگی قائدین حالات کے تقاضوں کا ادراک نہیں کر سکے‘ جن کی اناﺅں اور ایک دوسرے کو قبول نہ کرنے کی روش نے مسلم لیگ کے ووٹ بنک کو تقسیم کرکے آج تک خالص مسلم لیگ کے اقتدار کی نوبت نہیں آنے دی۔ اس تناظر میں گذشتہ سال مسلم لیگ کے یوم تاسیس کے موقع پر مسلم لیگ (ہم خیال) کے اجلاس میں مسلم لیگوں کے اتحاد کیلئے منظور کی گئی قرارداد میں یہ درست تجزیہ کیا گیا کہ اگر تمام مسلم لیگی دھڑے باہم متحد ہو کر آئندہ انتخاب لڑیں تو مسلم لیگ کو کلین سویپ حاصل ہو سکتی ہے اگرچہ اس وقت وفاق اور پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت ہے تاہم اگر متذکرہ قرارداد کی روشنی میں 11 مئی 2013ءکے انتخابات سے قبل مسلم لیگی قائدین اپنی اپنی اناﺅں کے خول سے نکل کر ایک پلیٹ فارم پر اپنے اپنے دھڑوں کو یکجا کر لیتے اور پھر یکسوئی کے ساتھ انتخابات میں حصہ لیا جاتا تو آج مرکز اور تمام صوبوں میں یکا و تنہا مسلم لیگ کی حکومت ہوتی جو پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں میں اپنے فیصلہ کن کردار کی بدولت ملک کو غربت، مہنگائی، بیروزگاری اور دوسرے مسائل کے گرداب سے نکالنے کیلئے جرا¿ت مندانہ فیصلے کرنے کی پوزیشن میں ہوتی اور ملک پر مسلط دہشت گردی کے ناسُور کے خاتمہ کیلئے بھی وہ کسی اٹل اقدام کی پوزیشن میں ہوتی۔ کیا یہ مسلم لیگی قائدین کیلئے لمحہ¿ فکریہ نہیں کہ جس مسلم لیگ نے بیک وقت انگریز، ہندو اور ان کی پروردہ مسلمانوں کی بزعم خویش نمائندہ بعض دینی جماعتوں کے پیدا کردہ انتہائی کٹھن حالات کا سامنا کرتے ہوئے اپنی تن تنہا جدوجہد کو تشکیلِ پاکستان کی عظیم کامیابی سے ہمکنار کیا، وہ مسلم لیگ قیام پاکستان کے بعد بابائے قوم قائداعظم کے چھوڑے گئے اس قیمتی ورثے کو سنبھال سکی نہ بانیانِ پاکستان کی امنگوں، آدرشوں کے مطابق پاکستان کو اسلامی، جمہوری فلاحی معاشرے سے ہمکنار کر سکی جبکہ آج بدترین اقتصادی مسائل میں گِھرے عوام سراپا سوال ہیں کہ برصغیر کے مسلمانوں کو جس مقصد کے تحت انگریز اور ہندو کی غلامی سے نجات دلا کر انہیں ایک آزاد و خود مختار مملکت کا تحفہ دیا گیا تھا اس میں آج بھی عوام الناس کیوں راندہ¿ درگاہ ہیں اور انگریز و ہندو کی ذہنیت والے استحصالی نظام کے آج بھی کیوں شکنجے میں ہیں۔ ان حالات کی بنیاد پر ہی اس ملکِ خداداد کے بدخواہ حلقوں کو قیامِ پاکستان کے مقاصد کے بارے میں غلط پراپیگنڈہ کرنے کا موقع مل رہا ہے ۔ٹکڑوں میں بٹے لگی قائدین کو آج مسلم لیگ کے یومِ تاسیس کے موقع پر اپنے اپنے گریبانوں میں ضرور جھانکنا چاہئے کہ ملک اور عوام کی موجودہ حالتِ زار کے وہ خود کتنے ذمہ دار ہیں۔ آج کم از کم حکمران مسلم لیگ (ن) کی قیادت کو ضرور کتھارسس کرنا چاہئے اور بڑے پن کا ثبوت دے کر مسلم لیگوں کے اتحاد کی فضا سازگار بنانی چاہئے۔
مگر یہ تلخ حقیقت آج بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ وزیراعظم میاں نواز شریف مسلم لیگوں کے اتحاد کی کسی کوشش میں نہ صرف خود کوئی دلچسپی نہیں لیتے بلکہ دوسرے لیگی دھڑوں بشمول چودھری برادران کیلئے عملاً دروازے بند کر چکے ہیں۔ فنکشنل لیگ کے قائد پیر صاحب پگارا شریف مسلم لیگ کے اتحاد کی آرزو لئے اس دنیا سے رخصت ہو گئے جن کے بعد انکے صاحبزادے پیر پگارا صبغت اللہ راشدی نے مسلم لیگوں کے اتحاد سے متعلق ان کا مشن سنبھالا تھا تاہم اب وہ بھی لیگیوں کے اتحاد کے معاملہ میں مایوس نظر آتے ہیں۔ آج یومِ تاسیس کے موقع پر مسلم لیگی قائدین کو سوچنا چاہیے کہ اب مزید کھونے کیلئے انکے پاس کچھ بچا بھی ہے یا نہیں؟ اور کیا مسلم لیگوں کے اتحاد کی کوششوں کو عملی قالب میں ڈھالنے کا یہی موقع نہیں کہ بیرونی سازشوں میں گھرے اس وطن عزیز کو آج بقاءو استحکام پاکستان کیلئے اس ایک مسلم لیگ کی ہی ضرورت ہے جو اس ملک خداداد کی بانی جماعت ہے۔
 

ای پیپر دی نیشن