25دسمبر کو عیسائی برادری کو کرسمس کی مبارک باد دیتے ہُوئے بلاول بھٹو نے کہا تھا کہ ”میری خواہش ہے کہ مَیں اپنی زندگی میں پاکستان میں عیسائی وزیرِ اعظم کو دیکھوں“۔ میرا خیال تھا کہ 27دسمبر کو محترمہ بے نظیر بھٹو کی برسی کے موقع پر اپنی تقریرمیں بلاول بھٹو اپنی یہ خواہش دُہراتے ہُوئے ضرور کہیں گے کہ”عیسائی وزیرِ اعظم مانگو گے! تو عیسائی وزیرِ اعظم دیں گے ہم۔ ہندو وزیرِ اعظم مانگو گے! تو ہندو وزیرِ اعظم دیں گے! سِکھ وزیرِ اعظم مانگو گے! تو سِکھ وزیرِ اعظم دیں گے ہم۔ یہ بازی خون کی بازی ہے۔ یہ بازی ہم ہی جیتےں گے“۔ لیکن بلاول بھٹو یہ معاملہ گول کر گئے۔ وزیرِ اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کی کابینہ کے رُکن اور پاکستان مسِیحا پارٹی کے چیئرمین جناب جے سالک نے مجھے 25دسمبر کوہی کہہ دیا تھا کہ”عیسائی وزیرِ اعظم بنانے کی بات کر کے بلاول بھٹو نے سیاست میں”مخولیا پارٹ“ ادا کرنے کی کوشش کی ہے۔ اِس لئے کہ آئین کی 18ویں ترمیم میں صدر زداری نے یہ شق بھی ڈلوا دی تھی کہ ”کوئی غیر مسلم پاکستان کا وزیرِ اعظم نہیں بن سکتا“۔ بلاول بھٹو نے صِرف بلدیاتی انتخابات میں عیسائی برادری کے ووٹ بٹورنے اور عیسائی اکثریت کے ملکوں میں سستی شہرت حاصل کرنے کی کوشش کی ہے“۔
بلاول بھٹو کے نانا ذوالفقار علی بھٹو نے ایک بار جلسہءعام سے خطاب کرتے ہُوئے گرمی کے موسم میں کوٹ اتار کر پھینک دیا تھا۔ بلاول بھٹو نے یہی کام سردی کے موسم میں کِیا۔ جنابِ بھٹو مُنہ بگاڑ بگاڑ کر اپنے سیاسی مخالفین کی تضحیک کِیا کرتے تھے۔ بلاول بھٹو نے بھی ایسا ہی کیا۔ بھٹو صاحب نے میاں مُمتاز دولتانہ کو ”چوہا“ خان عبدالقیوم خان کو”ڈبل بیرل خان“ اور ائر مارشل (ر) اصغر خان کو”آلو خان“ کہا۔ جناب آصف زرداری نے سابق صدر پرویز مشرف کو”بِلّا“ کہا اور بلاول بھٹو نے جناب عمران خان کو”بُزدل خان“ کہہ کر پُکارا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو بھی مخالفین پر طعن و تشنیع کے تِیر برساتی تھیں لیکن عورت ہونے کے ناتے حدود و قیود میں رہ کر، لیکن جنابِ زرداری اور اُن کا بیٹا بد زبانی میں ایک دوسرے سے زیادہ نمبر حاصل کرنے کی کوشش میں ہیں۔ شاعرِ سیاست کہتے ہیں۔۔
”دُخترِ مشرق بیانی، اور ہے
باپ بیٹے، کی کہانی، اور ہے
مُنہ بگاڑا، سب پہ بھٹو کی طرح
اب کے، طرزِ بدزبانی، اور ہے“
آصف زرداری اور اُن کے والد مرحوم حاکم علی زرداری ، 1985کے غیر جماعتی انتخابات میں نواب شاہ سے بالترتیب صوبائی اور قومی اسمبلی کا انتخاب ہار گئے تھے۔محترمہ بے نظیر بھٹو سے شادی کے بعد آصف زرداری اور حاکم علی زرداری نے بھٹو صاحب کو ”شہید“ کہنا شروع کِیا تھا۔ آصف زرداری اپنے والد اور بلاول بھٹو اپنے دادا حاکم علی زرداری کی سالگرہ اور برسی نہیں مناتے ۔ اِس لئے کہ حاکم علی زرداری کی قبر اُن کا ووٹ بنک نہیں ہے۔ حاکم علی زرداری"PIMS" (اسلام آباد) میں زندگی اور موت کی کشمکش میں تھے لیکن (صدر) آصف زرداری اپنے والد کی تیمارداری کے لئے نہیں گئے۔پھر جنابِ آصف زرداری نے لاہور میں بم پروف قلعہ نما محل تعمیر کرایا، لیکن جناب عمران خان نے انہیں کبھی ”بزدل زرداری“ نہیں کہا اور نہ ہی جنرل (ر) پرویز مشرف نے اُنہیں۔”جان کے خوف سے ، چھُپنے والا چوہا“ کہہ کر پکارا۔ بلاول بھٹو 11مئی کے انتخابات سے پہلے ہی جان کے خوف سے سیاسی مارکیٹ سے غائب ہو چکے تھے اور کہتے ہیں کہ”انتخابات سے پہلے ہی آصف زرداری کو ایوانِ صدر میں قیدی بنا لیا گیا تھا“۔ ایوانِ صدر میں قیدی بننے کا فیصلہ خود زرداری صاحب کا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو ہوتے تو اپنے گلے سے صدارت کا طوق اُتار کر، پیپلز پارٹی کی قیادت کرتے۔
بلاول بھٹو نے اعلان کِیا کہ ”مَیں بختاور بھٹو زرداری اور آصفہ بھٹو زرداری اب مِل کر عملی سیاست کریں گے۔بلاول بھٹو تو اپنی والدہ کے قتل اور اُن کی برآمدہ وصیت کے بعد ہی پیپلز پارٹی کے چیئرمین کی حیثیت سے ”عملی سیاست“ میں آگئے تھے۔ مِس بختاور اور مِس آصفہ نے تو عملی سیاست میں آنے سے قبل ہی مستقبل کے وزیرِ اعظم کی حیثیت سے ملالہ یوسف زئی کی حمایت کا اعلان کر دیا ہے۔ بلاول بھٹو نے وزیرِ اعظم نواز شریف کو”انکل نواز شریف“ کہہ کر پکارا، پنجابی میںکہتے ہیں”نالے چاچا تے نالے چونڈھِیاں“۔ اُنہوں نے مسلم لیگ ن کے انتخابی نشان”شیر“ کے حوالے سے میاں صاحب کے بارے میں بھی مخولِیا انداز اختیار کیا۔ کہتے ہیں”شیر کو ثابت کرنا ہوگا کہ وہ بدل گیا ہے۔ شیر مُلّا عُمر جیسا جعلی خلیفہ بننا چاہتا ہے۔ شیر جنگل میں وہی دودھ پی کر پلا ہے جو دہشت گردوں نے پِیا ہے“۔بلاول بھٹو کو شاید اُن کے کسی سیاسی اتالیق نے نہیں بتایا کہ اُن کے والد جناب آصف زرداری 26جولائی1955ءکو پیدا ہُوئے تھے اور عِلم نجوم کی حیثیت سے اُن کا Star ،Leo ہے یعنی۔ ”شیر“۔ اُن کا دودھ شریک بھائی کون ہے۔”انکل اویس مظفر ٹپی تو، جناب آصف زرداری کے منہہ بولے بھائی۔
وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو ایک جلسہءعام سے خطاب کر رہے تھے کہ سٹیج کے قریب کھڑے ایک نوجوان نے انہیں جُوتا دِکھایا۔ بھٹو صاحب نے بڑے اعتماد سے کہا ”ہاں!ہاں! میں جانتا ہُوں کہ جوتے مہنگے ہو گئے ہیں“۔ بلاول بھٹو کو نہ جانے کسی جیالے نے کیا دِکھایا کہ انہوں نے کہا ”ہاں! ہاں! مجھے معلوم ہے کہ جیالے ناراض ہیں، لیکن انہیں ہمارا ساتھ دینا ہوگا“۔ یہ تو بلاول بھٹو اور جیالوں کا اپنا معاملہ ہے لیکن عوام بلاول بھٹو اور اُن کے والد محترم کا ساتھ کیوں دیں گے جو دہشت گردی ختم بھی ہو جائے تو بھی عام جلسوں میں آنے کی جراتءنہیں کرسکتے۔ آخری دور کے مُغل جرنیلوں کی طرح جو، میدانِ جنگ میں گھوڑوں پر سوار ہونے کے بجائے پالکِیوں میں سوار ہو کر آتے اور اپنا شجرہءنسب ہندوستان میں پہلے مُغل بادشاہ ظہیر اُلدین بابر سے جوڑ کر بڑھکیں مارا کرتے تھے۔ ایران کا بادشاہ نادر شاہ دُرانی نماز کے لئے مسجد میں وضو کر رہا تھا کہ اچانک باہر سے ایک گیند آکر اُس کے جسم سے ٹکرائی۔ ایک لڑکا آیا اور اپنی گیند اٹھا کر چلا گیا۔ نماز کے بعد نادر شاہ دُرانی نے اپنے ایک وزیر سے کہا ”لگتا ہے میرے اقبال کا سُورج غروب ہو گیا ہے“۔ وزیر نے پوچھا ”بادشاہ سلامت! کیسے؟“ تو بادشاہ نے کہا کہ ”ایک لڑکے نے مجھے گیند ماری اور وہ مجھ سے معذرت کئے بغیر اپنی گیند اٹھا کر واپس چلا گیا“۔ کچھ دِن بعد ایران کا نِپولین اور سکندر ِ اعظم ثانی کہلانے والا نادر شاہ دُرانی 19جون 1747ءکو اپنے محافظوں کے ہاتھوں قتل ہو گیا۔ عدالت کے حکم پر کراچی میں بلاول ہاﺅس کے سامنے کئی سال سے بند سڑک عام ٹریفک کے لئے کھول دی گئی ہے۔ ”بھٹو ازم“ کے اقبال کا سُورج غروب ہو چکا ہے۔”بلاول بھٹو دخل در مخولیات“ کرتے بھی رہیں تو بھی” بھٹو ازم کا طوطا“ توپ نہیں چلا سکتا۔