نظرثانی کی درخواست میں مشرف نے ایمرجنسی کے نفاذ کا ملبہ شوکت عزیز پر ڈال دیا

اسلام آباد (آن لائن)  سابق صدر پرویز مشرف نے 3 نومبر 2007 ء کو ایمرجنسی کے نفاذ کا تمام تر ملبہ سابق وزیراعظم شوکت عزیز پر ڈال دیا ہے۔ سپریم کورٹ میں ایمرجنسی کے نفاذ کے خلاف فیصلہ پر نظر ثانی کی درخواست میں انہوں نے اس خط کو بھی حصہ بنایا ہے جو شوکت عزیز نے انہیں لکھا تھا اور جسے پرویز مشرف نے ہنگامی حالت کے نفاذ کی بنیاد بنایا‘ اس خط میں سابق وزیراعظم شوکت عزیز نے انہیں لکھا تھا کہ وہ قومی سلامتی کی صورتحال اور ملک کے مستقبل کے بارے میں خدشہ سے انہیں آگاہ کرنا چاہتے ہیں۔ حکومت نے معیشت کی بحالی‘ امن و امان کے قیام اور ملک سے انتہا پسندی و دہشت گردی کے خاتمے کیلئے سنجیدہ اور مخلصانہ اقدامات کئے تاہم حالیہ مہینوں میں صوبہ سرحد کے بعض اضلاع سمیت مختلف علاقوں میں ریاستی عسکریت پسندوں نے کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔ کراچی میں اٹھارہ اکتوبر 2007 ء کو سیاسی ریلی پر خود کش حملے سمیت مختلف علاقوں میں حالیہ خود کش حملے اور بم دھماکے کئے گئے، گزشتہ دس ماہ میں ان واقعات میں 1322 قیمتی جانیں ضائع ہوئیں، 3183 افراد زخمی ہوئے۔ اس خط کے ساتھ شوکت عزیز نے ان واقعات کی تفصیلات بھی دی تھی۔ خط میں کہا تھا کہ عسکریت پسندی اور انتہاء پسندی کی سرگرمیوں پر قابو پانے کیلئے کئے گئے اقدامات پر عدلیہ کے بعض ارکان نے سوال اٹھائے جس کے باعث موثر کارروائی ممکن نہ ہو سکی۔ حکومتی پالیسی میں عدلیہ کے بعض ارکان کی مداخلت میں اضافے سے اقتصادی ترقی بری طرح متاثر ہوئی۔ نجکاری اور آزادانہ پالیسی سمیت ڈی ریگولیشن حکومت کی اقتصادی پالیسیوں کا سنگ میل ہے جن سے اقتصادی ترقی اور سرمایہ کاری میں اضافہ ہوتا ہے لیکن اس مداخلت کے باعث مقامی اور غیر ملکی سرمایہ کاری پر منفی اثر پڑا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انتظامیہ کے اقدامات کا عدالتی جائزہ لیا جاسکتا ہے لیکن پالیسی اور اقدام حکومت کا کام ہے مگر عدلیہ کے بعض ارکان نے ان میں عدم مخالفت کی روایت پر عمل نہیں کیا۔ اگرچہ ہم عدلیہ کی آزادی اور قانون کی حکمرانی پر یقین رکھتے ہیں اور اعلیٰ عدلیہ کا انتہائی احترام کرتے ہیں لیکن یہ بات بھی اہم ہے کہ فاضل عدلیہ اپنے دائرے میں رہے اور مقننہ یا انتظامیہ کا منصب نہ سنبھالے۔ شوکت عزیز کا کہنا تھا کہ سب سے اہم بات یہ ہے کہ انتظامی امور میں مداخلت صرف اقتصادی پالیسی‘ قیمتوں پر کنٹرول‘ کارپوریشنوں میں ڈائون سائزنگ اور شہری منصوبہ بندی تک ہی محدود نہیں رہی بلکہ اس سے حکومت کی عملداری بھی کمزور ہوئی ہے جس کے باعث دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوا جو شہریوں کے جان و مال کے لئے خطرہ ہے، اس سے معیشت بھی متاثر ہوتی ہے۔ بڑے پیمانے پر عدالتوں کی طرف سے از خود اقدامات سے انصاف کا نظام متاثر ہوا ہے۔ پولیس فورسز کے حوصلے پست ہوچکے ہیں انٹیلی جنس ادارے دہشت گردوں کا پیچھا کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ سخت گیر عسکریت پسندوں‘ انتہا پسندوں‘ دہشت گردوں اور خود کش حملہ آوروں کو گرفتار کیا گیا، ان سے تفتیش کی جا رہی تھی کہ انہیں رہا کر دیا گیا۔ یہ لوگ گھنائونے جرائم میں ملوث ہوئے جس سے جان و مال  ضائع ہوا۔ عسکریت پسندوں کی ملک بھر میں حوصلہ افزائی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی حوصلہ شکنی ہوئی۔ یہ رائے عام ہے کہ عدلیہ اپنی حدود سے تجاوز کررہی ہے اور وہ انتظامی امور بھی سنبھال رہی ہے نجکاری رک چکی ہے، ملکی و غیر ملکی سرمایہ کار اپنے منصوبے ختم کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں، اہم آئینی ادارے سپریم جوڈیشل کونسل کو ایک حکم کے ذریعے غیر موثر بنا دیا گیا ہے، اس حکم کی تفصیلات تین ماہ گزرنے کے باوجود سامنے نہیں آ سکیں۔ اس طرح ججوں نے خود کو کسی بھی انکوائری سے مستثنیٰ کر دیا ہے، اب وہ احتساب سے مبرا ہیں، امن و امان کی صورتحال اور معیشت تباہ ہوچکی ہے۔ ایسی صورتحال پیدا ہوچکی ہے جہاں حکومتی مشینری کیلئے معمول کے مطابق کام کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے اور عام شہریوں کو اپنی سلامتی کے بارے میں تشویش لاحق ہے۔  خط میں صدر سے کہا گیا تھا کہ وزیراعظم کی حیثیت سے ان کی یہ رائے ہے ریاست کے تمام تینوں ستونوں کو قومی مفاد میں مل کر کام کرنا چاہئے کیونکہ پاکستان نے بڑی قربانی سے آزادی حاصل کی۔ نظرثانی درخواست میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ اس خط کے بعد پرویز مشرف چیف آف آرمی سٹاف کی حیثیت سے مجبور ہوئے کہ وہ ہنگامی حالت نافذ کریں اور عبوری آئینی حکم جاری کریں۔ فیصلہ تمام صوبائی گورنروں‘ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی‘ وائس چیف آف آرمی سٹاف اور کور کمانڈرز کے مشورے سے کیا گیا تھا۔

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...