لاہور (ندیم بسرا) محکمہ آب پاشی حکام کی عدم توجہ اور افسران کی ملی بھگت سے صوبے میں نہری نظام کی افادیت ختم ہونے لگی۔ 60 فیصد کسانوں کو نہری پانی کی مکمل دستیابی نہیں۔ پنجاب کے مختلف اضلاع میں محکمہ آبپاشی کے افسران اور ملازمین نہروں پر ناجائز کٹ لگا کر، ڈافاں بنا کر اور موہگے بڑے کر کے کسانوں کا پانی چوری کرنے لگے۔ پنجاب میں 60 سے 70 فیصد کسانوں کی فصلوں کا دار و مدار نہری پانی پر ہے مگر محکمہ آبپاشی کے پٹواری، اوورسیئر، ایس ڈی او اور ایکسیئن کو فی ایکڑ آبپاشی کیلئے 3 سے 4 ہزار روپے فی ایکڑ بطور رشوت دینا پڑتے ہیں۔ جس کی وجہ سے چھوٹے کسانوں کی اکثریت اپنے حصے کے پانی سے محروم ہو جاتی ہے۔ گزشتہ کئی برسوں سے کسانوں کے نہری پانی کے معاملات طے کرنے کیلئے پیڈا نے کسان تنظیمیں بنا رکھی ہیں مگر ان کی اہمیت بھی ختم ہو گئی ہے کیونکہ پنجاب میں خصوصاً جنوبی پنجاب، فیصل آباد سمیت دیگر اضلاع میں پانی چوری میں 100 فیصد اضافہ ہو گیا ہے۔ پنجاب کے چھوٹے کسانوں کو ڈیزل کی قیمتیں بڑھنے اور بجلی کے نرخوں میں اضافے کے باعث اپنی فصلوں کیلئے ٹیوب ویل کے ذریعے 5 سے 6 آبپاشی کرانے کیلئے 7 سے 8 ہزار روپے فی ایکڑ ادا کرنے پڑ رہے ہیں۔ ان کو نہری پانی مکمل طور پر دستیاب ہو تو فصلوں کی آبپاشی کا خرچہ 60 سے 70 روپے فی ایکڑ پڑتا ہے۔ مصنوعی طریقوں سے چوری کرا کے محکمانہ عملہ کسانوں سے ہزاروں روپے رشوت وصول کر رہا ہے۔ اس صورت حال کے باعث ایک طرف فی ایکڑ پیداوار کا ٹارگٹ پورا نہیں ہو رہا اور کسانوں کا کھلے عام استحصال بھی ہو رہا ہے۔ واضح رہے ملکی زراعت کا 80 فیصد پنجاب کی فصلوں پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ پنجاب میں بارانی علاقوں میں گجرات کا کچھ حصہ، سیالکوٹ، اٹک، راولپنڈی اور چکوال شامل ہے جن کی ربیع اور خریف کی فصلوں کا حصہ تقریباً 20 فیصد ہے باقی 80 فیصد پنجاب کی فصلوں کا انحصار نہری پانی پر ہے۔ کسانوں نے وزیراعلیٰ پنجاب، صوبائی وزیر آبپاشی اور سیکرٹری آبپاشی سے مطالبہ کیا ہے پنجاب کی تمام نہروں کا سروے کرانے کیلئے ازسرنو ٹیمیں تشکیل دیں اور نہروں پر پانی چوری روکنے کیلئے بغیر اطلاع کے چھاپے مارے جائیں اور محکمے کے اندر کالی بھیڑوں کا احتساب کیا جائے۔
محکمہ آبپاشی کی عدم توجہ ‘ افسروں کی ملی بھگت ‘ نہری نظام کی افادیت ختم ہونے لگی
Dec 30, 2013