”خادم پنجاب“ کے ایل آر سی منصوبے کا آغاز....

Dec 30, 2013

طاہر جمیل نورانی

وزیراعلیٰ پنجاب محمد شہبازشریف جو بیک وقت ”خادم پنجاب“ کی اعزازی ذمہ داریاں بھی سنبھالے ہوئے ہیں اور ایسے ایسے مشکل ترین کاموں کو آسان بنانے میں مصروف ہیں کہ جن کے بارے میں اہل پنجاب نے کبھی سوچا نہ تھا....؟میاں صاحب کے وقتاً فوقتاً جاری ہونے والے احکامات کو دیکھتے ہوئے لگتا یوں ہے جیسے صوبہ پنجاب کے عوام اور بالخصوص ”لاہوریوں“ کو انہوں نے اپنے ٹینو¿ر میں وہ کچھ کر دکھانے کا مصمم ارادہ کر لیا ہے جو پہلے پرویزالٰہی بھی نہ دکھا سکے....؟
شہبازشریف چاہتے ہیںکہ اس بار شہری عوام کی ہی نہیں‘ دیہی عوام کی وہ مشکلات بھی آسان کر جائیں جن سے وہ سالہاسال سے دوچار چلے آرہے ہیں....؟اس سے یہ مراد ہرگز نہیں کہ وہ ”اہلِ پنجاب“ کا ہر مسئلہ حل کرنے جا رہے ہیں؟ بحیثیت وزیراعلیٰ ان کے بعض ترقیاتی منصوبے جس نے اندرون اور بیرون ملک ”جنگلا بس پراجیکٹس“ کے نام سے بے پناہ شہرت حاصل کی‘ عوامی ٹرانسپورٹ کی تیزرفتاری کا یہ ایک انتہائی مہنگا ترین منصوبہ تھا جو پایہ¿ تکمیل تک پہنچ گیا.... مگر! اس منصوبے کا مستقبل کہاںتک روشن ہے ایسا الجھا اور بے ترتیب سا سوال ہے‘ جو عوامی سیاسی حلقوں میں آج بھی زیربحث ہے۔اسلام آباد کا نیا زیرتعمیر انٹرنیشنل ایئرپورٹ جس کے تعمیری کام کا آغاز 1984ءمیں ہوا.... جس کیلئے 35 سو ایکڑ پر مشتمل سستی ترین اراضی کو مہنگے ترین داموں خریدا گیا اور یوں جس ایئرپورٹ کی تکمیل پر 37 ملین روپے کا اس وقت تخمینہ لگایاگیا.... اب اس کی لاگت 83ملین روپے تک کیسے پہنچ گئی ایسا وہ دوسرا سوال ہے جس کاجواب قوم جاننے کیلئے بے قرار ہے۔لوگ بے چارے چونکہ آلو‘ گوبھی‘ پیاز‘ لہسن اور ٹماٹر کی آسمان کو چھوتی قیمتوں سے پہلے ہی ادھ موئے ہو چکے ہیں‘ اس لئے ان کے پاس اتنا وقت کہاں کہ وہ وزیراعلیٰ کے ہر قومی منصوبے کا جائزہ لیتے ہوئے اس پر کوئی تبصرہ کریں۔
میاں صاحب نے تعلیم دوستی کے حوالے سے جن طلباءکو کمپیوٹر لیپ ٹاپ ”کنِڈلیں‘ اور پتہ نہیں جدید الیکٹرانک کمیونیکیشن کی مد میں کیا کیا مفت تقسیم کیا ‘ایک احسن اقدام ہے مگر! جن مستحق طلباءکو واقعی ”لیپ ٹاپ“ درکار تھے انہیں نظرانداز کر دیا گیا یا پھر ان طلباءکی وزیراعلیٰ کی ٹیم تک رسائی ہی نہ ہو سکی جو آج بھی اسی انتظار میں ہیں کہ ان تک بھی وزیراعلیٰ کا کوئی ایسا ”آٹومیٹک“ حکم آجائے جس سے ان کی جائز خواہش پوری ہو سکے....؟؟؟
اب حال ہی میں وزیراعلیٰ پنجاب کے ایک 66 سالہ پرانے ‘ الجھے اور بے ترتیب مسئلہ کو سلجھانے کیلئے فوری طورپر ایکشن لینے کا حتمی فیصلہ کر لیا ہے "Land Record Computerisation" کے اس تاریخی منصوبے کا اعلان کرتے ہوئے واقعی شہبازشریف نے ایسا مثبت قدم اٹھایا ہے جس سے زمینداروں اور کاشتکاروں کو محکمہ مال کے افسران کو رشوت دینے کے عمل سے ہمیشہ کیلئے چھٹکارا ملنے کی امید پیدا ہو گئی ہے۔یوں تو یہاں پر سرکاری اور نیم سرکاری محکمہ ”کرپشن“ کا بُری طرح شکارہے مگر محکمہ مال میں رشوت کی اپنی ایک الگ ہی دنیا ہے.... پٹواری‘ گرداور‘ قانون گو‘ نائب تحصیلدار‘ ڈپٹی ڈسٹرکٹ اور ڈسٹرکٹ ریونیو افسران اور ان کے ماتحت دفتری عملے‘ سائلین کی رجسٹریوں‘ فرد اراضی و انتقال اراضی کے حصول کے علاوہ ”اشتمال اراضی“ کی مشکل ترین شقوں میں الجھا کر گزشتہ 66 برس سے جس طرح لوٹتا چلا آرہا ہے.... ”بی اے‘ ایم اور پی ایچ ڈی تو دور کی بات‘ اراکین اسمبلی اور وزراءتک اس محکمے کا بال تک بیکا نہیں کر سکے....؟ اب ایک سچا واقعہ بھی سنتے چلئے....میں نے اپنے علاقہ کے پٹواری کے نام ڈپٹی ڈسٹرکٹ آفیسر کی جانب سے بھجوائی درخواست کے ریمارکس کی تصدیق کروانا تھی.... میری درخواست اُردو میں تھی مگر اس پر ڈی ڈی او نے ریمارکس انگریزی میں لکھ دیئے۔ وہ درخواست لیکر جب میں اپنے ”گریجوایٹ پٹواری“ کے دفتر پہنچا ، اس گریجویٹ پٹواری نے مجھے اشارہ کرتے ہوئے دفتر سے باہر چلنے کو کہا اور پھر جونہی ہم باہر آئے ‘اس نے رازداری سے کہا کہ اس درخواست پر ”بڑے صاب“ کے انگریزی میں لکھے ریمارس اسے پڑھ کر سنانے کے بعد سمجھا بھی دوں....؟؟ مگر آپ تو گریجوایٹ ہیں.... میں نے پٹواری کے سوال پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے اسے کہا!اوسر جی! چھوڑیئے بی اے وی اے کو.... آپ میرا کام کریں.... میںآپ کا کام کرنے کی تیاری کروں....؟؟؟میں نے مسکراتے ہوئے انگریزی میں لکھی عبارت سنائی اور اس نے ایک سوالیہ قہقہہ لگاتے ہوئے کہا کہ بس اتنا سا کام تھا.... پتہ نہیں ان ”بڑے صابوں“ کو کیا ہو گیا ہے۔ بھلا اس درخواست پر اتنی مشکل انگریزی لکھنے کی ضرورت کیا تھی....؟؟ چلئے.... چھوڑیئے.... میں نے تصدیق کردی ہے.... لایئے میری خدمت کا صلہ! .... خدمت کا صلہ وہ کیا.... ؟ میں نے انجان بنتے ہوئے کہا! حضور! آپ نے چونکہ انگریزی پڑھ دی ہے اس لئے ”خدمتی صلہ“ میں ڈسکاﺅٹ دے رہا ہوں.... ورنہ ایسے ”کاموں“ کے بارے میں زیادہ سوال و جواب نہیں کیا کرتے؟ لایئے نکالئے.... بس پھر کیا تھا۔ میں نے رشوت دی.... گریجوایٹ پٹواری نے لے لی.... مگر! ہم دونوں جہنمی ٹھہرے! میں نے ازراہ مذاق اسے کہا! وہ کیسے! اس نے مجھے گھورتے ہوئے سوال کیا....؟؟ اسلئے کہ رشوت دینے اور رشوت لینے والا دونوں جہنمی ہیں.... یہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے....؟؟ میں نے اسے جواب دیا۔مگر سر جی! کیا آپ کیلئے یہ کم انعام ہے کہ آپ ”کام“ کیلئے آئے اور میں نے فوری طورپر دیگر سائلین کی پروا کئے بغیر ”آپ کا کام“ کر دیا.... اس کے بعد اگر آپ سے اپنی محنت کا صلہ مانگا ہے تو اس میں ”جہنم“ کہاں سے آ گئی....؟؟؟ اس نے ایک قہقہہ لگاتے ہوئے کہا!خوشی مجھے اب اسلئے ہے کہ وزیراعلیٰ کے ”لینڈ ریکارڈ کمپیوٹرائزیشن“ پروگرام سے کم از کم رشوت دینے اور رشوت لینے والا دونوں بچ جائینگے ؟

مزیدخبریں