مقبوضہ بیت المقدس (بی بی سی اردو) اسرائیل کے سابق وزیراعظم ایہود اولمرٹ کو رشوت لینے کے الزام میں 18 ماہ قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ اس سے قبل 2014ء میں انہیں اسی مقدمے میں 6 برس کی سزا سنائی گئی تھی جسے سپریم کورٹ نے کم کر دیا تھا۔ 70سالہ ایہود اولمرت کو 2006ء میں ہونے والی جائیداد کی خرید و فروخت کی ایک ڈیل کے مقدمے میں مجرم قرار دیا گیا تھا۔ مسٹر اولمرت اس وقت مقبوضہ بیت المقدس کے مئیر تھے۔ سپریم کورٹ نے انہیں 8 لاکھ شیکل رشوت لینے کے الزام سے تو بری کر دیا تاہم 60 ہزار شیکل لینے کے ایک الزام میں مجرم قرار دیدیا۔ ان پر یہ الزام تھا کہ شہر کے قلب میں ایک متنازع رہائشی پراجیکٹ ہولی لینڈ میں تیزی لانے کے لئے انہوں نے رشوت لی تھی۔ اولمرت کو سنائی گئی سزا کا اطلاق 15 فروری 2016ء سے ہو گا۔ اپوزیشن لیڈر اضحاک ہرزوگ نے کہا یہ بات ثابت ہو گئی کہ وزیراعظم سمیت کوئی بھی شخص قانون سے بالاتر نہیں۔ اولمرٹ 2006ء سے 2009ء کے درمیان اسرائیل کے وزیراعظم رہے۔ انہیں بدعنوانی کے الزامات کے نتیجے میں وزارت عظمیٰ سے مستعفی ہونا پڑا اور اس کی وجہ سے ان کا سیاسی کریئر بھی ختم ہو گیا۔ ان کے جانے سے فلسطین کے ساتھ اسرائیل کے امن مذاکرات بھی متاثر ہوئے اور نتن یاہو کے منتخب ہونے کی راہ ہموار ہو گئی جنہیں امن مذاکرات کے سلسلے میں زیادہ سخت گیر تصور کیا جاتا ہے۔ اولمرت کو 2012ء میں نیویارک کے فنانسر مورس ٹلانسکی سے لفافوں میں کیش قبول کرنے کے الزام سے بری کر دیا گیا تھا۔ لیکن جب اس معاملے میں چند ریکارڈنگ سامنے آئیں تو اس کیس کی دوبارہ سماعت کا حکم جاری کیا گیا تو انہیں رشوت لینے کا قصوروار پایا گیا۔ یہ واقعہ گذشتہ دہائی کے اوائل کا ہے جب وہ تجارت و صنعت کے وزیر ہوا کرتے تھے۔ اسرائیلی سابق صدر موشے کائزاف بھی ان دنوں زیادتی کے الزام میں 7 سال قید کاٹ رہے ہیں۔