وہ کیسا منظر ہو گا جب ایف آئی اے ٹیم نے سپریم کورٹ کے حکم پر وزیر اعظم ہائوس میں میاں محمد نواز شریف سے اصغر خان کیس میں تفتیش کی۔ عمومی حالات میں ایف آئی اے اہلکاروں کے سامنے کھڑے ملزم کے پسینے چھوٹے ہوتے اور کپکپی طاری ہوتی ہے۔ وزیر اعظم ہائوس میں تصوراتی منظر یہ ہو سکتا ہے کہ اہلکار میاں صاحب کے سامنے دست بستہ کھڑے ہو کر بیان کے خواستگار ہوئے۔ میاں صاحب نے ازراہِ کرم ان کو بیٹھنے کو کہا چائے پلائی اور ٹائپ شدہ بیان ان کے حوالے کردیا ہو۔ بیان میں وزیر اعظم نے آئی ایس آئی سے پیسے لینے کا الزام یکسر مسترد کر دیا ، نوازشریف نے کہا ہے کہ انہوں نے کبھی آئی ایس آئی سے پیسے نہیں لئے۔ میں نے زندگی بھر اصولوں پر سیاست کی ایسے لین دین سے کوئی تعلق نہیں‘‘۔ میاں نواز شریف نے نہ صرف اصولوں پر مبنی سیاست کی بلکہ سیاست میں کئی درخشاں باب بھی رقم کئے۔ بے نظیر بھٹو کے ساتھ میثاق جمہوریت دونوں رہنمائوں کی سیاست کا زریں باب ہے۔ میثاق جمہوریت سے قبل بھی دونوں رہنمائوں کی مشترکہ کاوشوں سے جمہوریت میں اعلیٰ روایات اور مثالیں قائم ہوئیں۔ چھانگا مانگا، مری اور سوات سیاست انہیں اعلیٰ پائے کے سیاستدانوں کے جمہوریت میں انمٹ نقوش ہیں۔
میاں صاحب سے ایک تفتیش 1999ء میں ان کی حکومت کا تختہ الٹنے جانے کے بعد بھی ہوتی رہی۔ اس وقت منظر کیا ہو گا۔ بہر حال میاں نواز شریف اُس وقت سرخرو ہوئے انہوں نے تفتیش کاروں کو ان کی مرضی کا بیان نہیں دیا البتہ اسحق ڈار مان گئے کہ وہ وزیر اعظم کے لئے منی لانڈرنگ کرتے رہے ہیں۔
بیگم عابدہ حسین نے تسلیم کر لیا کہ آئی جے آئی کے جن رہنمائوں میں پیسے تقسیم ہوئے ان میں وہ بھی شامل تھیں۔ جب ایک آرمی چیف اور ڈی جی، آئی ایس آئی رقوم تقسیم کرنے کی بات کرتے ہیں تو کسی گواہی اور تحقیقات و تفتیش کی ضرورت نہیں رہتی۔ وزیر اعظم کا بیان بلاشبہ درست ہے کہ انہوں نے آئی ایس آئی سے پیسے نہیں لئے اور واقعی آئی ایس آئی سے کسی نے بھی پیسے نہیں لئے ،کیونکہ آئی جے آئی کی تشکیل کے لئے آئی ایس آئی نے پیسے تقسیم ہی نہیں کئے تو نواز شریف اور بیگم عابدہ حسین سمیت کسی کی طرف سے وصول کرنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔پیسے ملٹری انٹیلی جنس نے تقسیم کئے تھے۔ ان دنوں میجر جنرل اسد درانی ڈی جی،ایم آئی تھے۔ اسد درانی بعد میں آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل بنے تھے۔ ایم آئی کویہ فریضہ اس لئے ادا کرنا پڑا کہ آئی ایس اے کے ڈی جی، جنرل (ر) شمس الرحمن کلو تھے۔ یہ شاید پہلی اور آخری مرتبہ ہوا کہ ایک ریٹائرڈ جنرل کو آئی ایس آئی کا سربراہ بنایا گیا ۔ جنرل کلو، محترمہ کیلئے با اعتماد تھے۔ صدر اسحاق خان اور آرمی چیف جنرل اسلم بیگ نے ان کوایک سائیڈ پہ رکھتے ہوئے ایم آئی سے یہ کام کرایا۔ مقصد پیپلز پارٹی کو ہر صورت دوبارہ اقتدار میں آنے سے روکنا تھا یوں پیسے کے زور پر مرضی کی جمہوریت کا راستہ ہموار کر دیا گیا۔ میاں نواز شریف کو یہاں یہ کریڈٹ دینا ہو گا کہ وہ ان کو اقتدار میں لانے والوں کی ہاتھ کی چھڑی اور کلائی کی گھڑی ثابت نہ ہوئے جس کے باعث انہیں اقتدار سے بھی الگ ہونا پڑا اور وہ اقتدار میں لا کر نکالنے والے اسحق خان کو بھی لے ڈوبے۔ یہ میثاق جمہوریت کا بہترین موقع تھا مگر نواز شریف کے سر پر مزاحمتی سیاست سواررہی۔جواب میںبھی مزاحمت ہوتی رہی اور حکومتیں دو اڑھائی سال ٹوٹتی رہیں۔ جب مفاہمتی سیاست پر میاں صاحب آئے تو میثاق جمہوریت بھی ہو گیا اور مفاہمت بھی کچھ زیادہ ہی ہو گئی پھر حکومت ہی حکومت رہی،اپوزیشن لا وجود ہوگئی۔ 2008ء کے الیکشن میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن ایک دوسرے کے مد مقابل ہو کر بھی مد مقابل نہیں تھیں۔ بینظیر بھٹو اپنے جلسوں میں کہتی تھیں’ پیپلز پارٹی کو ووٹ دیں، اگر پیپلز پارٹی کو ووٹ نہیںدینا تو مسلم لیگ ن کو دیں‘۔ بے نظیر قتل ہو گئیں تو ہمدردی کے ووٹ سے زرداری صاحب اقتدار میں آ گئے میاں نواز شریف نے بینظیر سے مفاہمت کا کیا ہوا عہد نبھایا جبکہ عوام ن، پی پی معاہدے کے دو پا ٹوں میں آ کر پس گئے۔
پیپلز پارٹی نے حد کردی تو باری نواز شریف کو مل گئی۔ ان کی حکمرانی نے زرداری کی باری کے لوازمات پورے کر دیئے تھے مگر درمیان میں عمران خان کی پی ٹی آئی ٹپک پڑی۔ پی پی پی دور میں نواز لیگ نے دوستانہ اپوزیشن کا کردار ادا کیا، پی پی پی آج بدلے میں رینجرز کے اختیارات پر محاذآرائی کے باوجودایسا ہی کردار ادا کر رہی ہے۔ اس دوران پی ٹی آئی کو اپوزیشن کا کردار ادا کرنیکا موقع مل گیا جس پرحکمران نوازلیگ اورباری کی منتظر پی پی نالاں ہیں۔ نواز شریف کو مزاحمتی سیاست نے لیڈر بنایا اور تین مرتبہ وزیر اعظم ہائوس پہنچایا۔ وہ مفاہمتی سیاست یا دوستانہ اپوزیشن کا کردار ادا کرتے تو شہرت جنرل ضیاء الحق کے روحانی فرزندکی رہتی اور وہ ضیاء الحق کا مشن پورا کرنے کے دعوے اور نعرے لگارہے ہوتے ۔
عمران خان بھی اپوزیشن کا مکمل کردار ادا نہیں کررہے۔ چند حلقوں کو لے کر وہ دھاندلی کا شور مچاتے اور دھرنے دیتے ہیں۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں حکومت مطلوبہ ریلیف نہیں دے رہی۔ مہنگائی بڑھتی جا رہی ہے۔وزیر اعظم نے اپنی آنکھ کے تارے صنعتکاروں کو فی یونٹ تین روپے کی کمی کا تحفہ دیا یہ بوجھ شاید عام صارفین پر ڈال دیا جائیگا۔ ناروا ٹیکس لگائے اور بڑھائے جا رہے ہیں۔ اس پردھرنا نہیں دیا جاتا۔ عمران خان کہتے ہیں کہ ن لیگ اور پی پی پی آپس میں ملے ہوئے ہیں۔ عوامی مسائل پر پی ٹی آئی کی خاموشی سے لگتا ہے ، پی ٹی آئی بھی ان سے ملی ہوئی ہے۔ عوامی مسائل کا ادراک کر کے عوام کو ساتھ ملایا ہوتا تو تبدیلی کی زیادہ گنجائش تھی۔اب لگتاہے مسلم لیگ ن 2018ء تو کیا 2023ء میں بھی میدان مارے گی۔
عام آدمی کو روٹی روزی اور اپنے مسائل سے سروکار ہے نندی پور جیسے منصوبوں سے نہیں۔ بجلی کی صورت حال پہلے سے بہتر ہے۔ جائیدادیں بنانا، اندھا دھند پیسہ کمانا جن لوگوں کی ضرورت ہے وہ پوری ہو رہی ہے۔ بڑے لوگوں کے ہاتھوں میں زمامِ اقتدارہے۔ جو ان کی ضروریات کرے پوری وہی کھائے چوری۔ عمران خان کے ہاتھوں بظاہر پریشان حکمران تو 2025ء کی پلاننگ کر رہے ہیں اور درست کر رہے ہیں۔ ان کو اداروں کی معاونت حاصل ہے۔ مشرف کے بعد ن لیگ چھاچھ بھی پھونک پھونک پر پیتی ہے۔ فوج کے معاملات میں یہ مداخلت نہیں کرتے فوج ان کے معاملات سے لاتعلق ہے۔گھورنے والے سیکرٹریز اور افسروں کوبھگاکر اپنے وفادار لگا دیئے جاتے ہیں۔ محتسب اعظم کی حیثیت ذاتی کارندے کی سی ہے۔ جج حضرات بھی آخر انسان ہیں اور وہ میاں صاحب کی انسانیت کے لئے خدمات کے معترف ہیں۔۔۔ تو ڈر کاہے کا۔ خلوص نیت سے مشورہ ہے کہ حکمران پارٹی کرپشن اور اقرباء کے خاتمے کا سلسلہ گھر سے شروع کر دے انصاف کے تقاضوں کی راہ میں رکاوٹ نہ بنے، عام آدمی کے لئے سستی روٹی کا بندوبست کردے تو عوام نے جمہوریت سے کیا لینا ہے انہیں ایسی ملوکیت بھی قبول ہو گی۔یہ ملوکیت چلتی رہے گی بشرطیکہ قائدِ محترم خود نہ پھسل جائیں اور 99ء کی طرح بم کو لات نہ مار دیں۔
جمہوریت سے ملوکیت
Dec 30, 2015