2015ء اضافی گندم کا بحران… ایک جائزہ

ہر شعبہ زندگی میں جب گزرے ہوئے سال کا جائزہ لیا جاتا ہے تو کچھ اچھا اور کچھ برا کا تاثر موجود ہوتا ہے اگر ہم گندم کی صورتحال کا 2015ء میں جائزہ لیں تو گزرتا ہوا سال اپنے ساتھ اضافی گندم کے اثرات چھوڑے جا رہا ہے اور پاکستان جیسے زرعی ملک کیلئے یہ ایک حیران کن حقیقت ہے کہ ہم گندم زیادہ یا کم بعض ناعاقبت اندیشیوں کی وجہ سے بحرانی کیفیت میں بھی رہتے ہیں۔ اسکی بنیادی وجوہات میں پالیسی میکرز کی لاپرواہی اور معاملات کی سنگینی کو نظر انداز کرنے کے علاوہ چند مافیا حضرات کی خصوصی دلچسپی شامل ہے۔ 2015ء میں جب زرعی سال ختم ہوا تو پورے پاکستان میں گزشتہ برس کے گندم کے اضافی سٹاکس 60 لاکھ ٹن کے لگ بھگ تھے جن میں صرف پنجاب کے پاس 21 لاکھ ٹن گندم گوداموں اور کھلے میدانوں میں پڑی ہوئی تھی۔ اپریل 2015ء میں نئی فصل کی شاندار پیداوار نے اس بحران میں اس لئے اضافہ کر دیا کہ پہلے سے موجود گندم اور پھر نئے سرے سے گندم خریداری نے مل کر پنجاب کے سٹاکس کو 51 لاکھ ٹن اور ملکی سٹاکس کو 80 لاکھ ٹن تک پہنچا دیا۔ اس دوران مارچ سے ہی راقم الحروف نے اپنے کالموں اور اخباری بیانات کے ذریعے حکومت پاکستان کو مشورہ دیا کہ کسی بھی چیز یا معجزے کا انتظار کئے بغیر حکومت گندم کی برآمد کیلئے مئی، جون، جولائی اور اگست 2015ء کیلئے عالمی ٹینڈر جاری کرے اور نفع نقصان کی پرواہ کئے بغیر اس اضافی گندم کی برآمد کو یقینی بنائے مگر ایک مافیا مسلسل وزارت خوراک سکیورٹی اسلام آباد کے پیچھے تھا جس نے پہلے اتنی اضافی گندم کی موجودگی کے باوجود گندم امپورٹ کی جسکے پیچھے صرف اور صرف نفع کا حصول تھا جبکہ بعدازاں شور مچا کر کہ عالمی مارکیٹ میں گندم کے نرخ گر گئے ہیں تو منسٹری سے یہ تجویز منظور کروائی گئی کہ 90 ڈالر فی ٹن کاری بیٹ گندم اور آٹے کی برآمد پر دیا جائے جس پر اقتصادی رابطہ کمیٹی کی منظوری بھی ہو گئی اور آٹھ لاکھ ٹن پنجاب جبکہ 4 لاکھ ٹن سندھ کو برآمد کرنے کو کہا گیا اور اچھنبے کی بات یہ کہ اسے چند ہاتھوں میں محدود کر دیا گیا جس سے یہ ہوا کہ یہ مافیا محکمہ خوراک سے سستی گندم خرید کر یہاں کے بازاروں میں ہی فروخت کرنے لگا اس ڈیل سے ایک خطیر منافع حاصل کر کے پھر اتنی ہی مقدار کی برآمد کے کاغذات پر مہریں لگوا کر برآمد کو جائز ثابت کر کے تقریباً 3 ارب روپے کے ری بیٹ کی رقم بھی حاصل کر لی گئی۔ اس میں سے 20 فیصد لوگوں نے صحیح برآمد بھی کی ہو گی مگر جن لوگوں نے اس ملک کی سستی گندم کو برآمد کرنے کا کہہ کر یہیں فروخت کر کے دوہرے نفع کمائے انہوں نے ملک کیساتھ زیادتی کی اور اسکی ذمہ داری پالیسی میکرز پر ہی آتی ہے جنہوں نے مروجہ برآمدی طریقہ کار (TCP) سے ہٹ کر ایک نیا منصوبہ بنایا۔ حکومت پاکستان کو جگانے کی کوشش کے نتیجہ میں یہ غیر حقیقی اور ناجائز برآمد بند تو کر دی گئی مگر مافیا پھر کوششیں کر رہا ہے اور اخبارات و الیکٹرانک میڈیا گواہ ہیں کہ پاکستان فلور ملز ایسوسی ایشن نے مافیا کا ساتھ دیتے ہوئے اشتہار کے علاوہ پریس کانفرنسوں میں بھی اس ری بیٹ ایکسپورٹ سکیم کی تجدید کا مطالبہ کرتے ہوئے 2 دسمبر کو ہڑتال کا بھی اعلان کر دیا جو بعد ازاں فلور ملنگ انڈسٹری کے 95 فیصد لوگوں کی ناپسندیدگی کی وجہ سے ملتوی کر دیا گیا۔ گویا یہ سال 2015ء گندم کے اضافی بحران کا سال بھی رہا اور جب اس بحران کو ختم کرنے کیلئے یہ تجویز دی گئی کہ عمومی طور پر گندم کا اجرائی نرخ 1100 سے 1200 کی حد میں رکھا جائے تاکہ عوام بھی سستا آٹا کھا سکے اور کچھ گندم افغانستان میں آٹے کی شکل میں چلی جائے تو اس تجویز کو بھی رد کروانے کیلئے مافیا سرگرم عمل رہا اور بالآخر ایسا اجرائی نرخ 1300 فی من مقرر کروایا گیا جس سے گندم کا اجراء خاطر خواہ نہ ہو سکا اور آج بھی 20000 ٹن روزانہ کی بجائے 13000 ٹن روزانہ تک اجرا ہو رہا ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ پنجاب کی انڈسٹری ہی نہیں پورے ملک کی فلور ملنگ انڈسٹری مہنگے نرخوں کی وجہ سے جمود کا شکار ہو چکی ہے اور KPK میں 200 فلور ملز بند جبکہ اسلام آباد میں 50، لاہور میں 35، فیصل آباد میں 30، گوجرانوالہ 50، ملتان میں 53، بہاولپور میں 21، رحیم یار خان میں 61، سرگودھا میں 10 جبکہ دوسرے شہروں میں بھی 50 فیصد ملیں بند ہیں اور انکی بحالی کیلئے کام کرنے کی بجائے فلور ملز نمائندے جعلی ایکسپورٹ سکیم کی بحالی کیلئے زور لگا رہے ہیں۔2015ء گزر گیا ہے اور میرا یہ دعوی ہے کہ ایسی جعلی پالیسیوں کا نتیجہ یہ ہو گا کہ نئی فصل کے آنے تک پاکستان میں گزشتہ برسوں کی 60 لاکھ ٹن پھر بچ جائیگی جو ملکی خزانے کا ضیاع ہے حکومت پاکستان کے وزیر، مشیر اور افسران اپنی آنکھیں کیوں بند رکھے ہوئے ہیں اور کس دن انہیں کھولیں گے۔ 2015ء کے سالی میں ہونیوالی غلطیوں کو دھرایا گیا تو آئندہ برس بمپر کراپ کی موجودگی میں یہ بحران اور شدت اختیار کر جائیگا جس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ عوام نہ تو اتنی گندم کی موجودگی میں سستے آٹے سے محروم رہیں گے اور پاکستان عالمی مارکیٹ سے گندم کے سلسلہ میں آئوٹ ہو جائیگا۔ حکومت کو چاہئیے کہ مروجہ طریقہ کار کو استعمال کرتے ہوئے سال کے شروع میں ہی TCP کو یہ ٹاسک دے کہ وہ مختلف مہینوں کیلئے گندم کی فروخت کیلئے عالمی ٹینڈر جاری کرے اور سیدھی سادھی برآمد کو یقینی بنائے ورنہ پھر یہ بات یقینی ہے کہ مافیا آپ کو اسی طرح بچاتا رہے گا اور گندم کی دولت سے آمدن کی بجائے ملک کو نقصان ہوتا رہے گا۔ پنجاب کے وزیر میاں محمد شہباز شریف اس حقیقت سے واقف ہیں کہ 1300 روپے نرخ کروانے والے کون لوگ تھے اور اب جب 20 سے 25 لاکھ ٹن گندم بچ جائیگی تو انہیں اسکی ذمہ داری کس پر ڈالنی ہے اور اس کا تدارک کیسے کرنا ہے؟ خدا ہمارے حال پر رحم کرے (آمین)

ای پیپر دی نیشن