کراچی آپریشن اورسندھ حکومت کا واویلا؟

ملک میں دہشتگردوں کیخلاف عمومی جنگ ہو یا رینجرز کے ذریعے کراچی اپریشن کا معاملہ، ان دور رس فیصلوں کو عوامی حلقوں میں ہمیشہ پذیرائی ملی، کہیں نہ کہیں اختلاف رائے بھی دیکھنے کو ملامگر پاکستان کی تاریخ میں 16 دسمبر 2014ء ایسا دن ہے جب چشم فلک نے دہشتگردوں کے ہاتھوں آرمی پبلک سکول کے ڈیڑھ سو کے قریب ننھے فرشتوں کے خون سے کھیلی گئی ہولی کا منظر دیکھا۔ قوم کیلئے یہ سانحہ نا قابل برداشت تھابیس کروڑ عوام کی پرنم آنکھیں پاکستان کی حکومت اور افواج کو ایک دو ٹوک پیغام دے رہی تھیں۔سیاسی راہنمائوں نے تمام باہمی رقابتیں ترک کے دہشت گردوں اور قوم کے مابین واضح لکیر کھینچ کر باہمی یگانگت کا ثبوت دیا۔وزیر اعظم ہائوس میں ملک کی سیاسی جماعتوں کے جملہ پارلیمانی لیڈروں نے وزیر اعظم کی صدارت میں طویل میٹنگ کے دوران اتفاق رائے سے دہشت گردوں کیخلاف ٹھوس اقدامات پر مبنی فیصلہ کن جنگ اور پہلے سے جاری کراچی اپریشن کو اس کے منطقی انجام تک پہنچانے کا فیصلہ کیا اس فیصلے کی روشنی میں حکومت نے جس بیس نکاتی نیشنل ایکشن پلان کی منظوری دی اسکی تفصیل کچھ یوں ہے۔ حکومت نے عدالتوں سے سزا پانے والے دہشتگردوں کی سزاء پر عملدرآمد کا فیصلہ کیا۔واضح رہے کہ حکومت پاکستان نے کئی سالوں سے اقوام متحدہ کی قرارداد کے احترام میں ہر قسم کی سزائے موت پر عملدر آمد روک رکھا تھا۔ دو سال کی مدت کیلئے دہشتگردوں کے سپیڈی ٹرائل کیلئے فوجی افسروں کی سربراہی میں سپیشل عدالتوں کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔ ملک میں مسلح گروپس کے قیام کی اجازت نہیں ہوگی۔نیشنل کائونٹر ٹیررزم اتھارٹی کو بحال کر کے اسے موئثر بنایا جائیگا۔نفرت پھیلانے والی تقاریر کرنے اور انکی اشاعت کرنے پر متعلقہ اخبار اور میگزین کارروائی ہوگی۔ دہشتگردوں کے فنڈنگ ذرائع کو منقطع کیا جائیگا۔کالعدم تنظیموں کو کسی دیگر نام سے بھی کام کرنے کی اجازت نہیں ہو گی۔سپیشل انسداد دہشتگردی فورس کا قیام عمل میں لایا جاکر اسے مامور کیا جائیگا۔ مذہبی انتہاپسندی کو روکنے اور اقلیتوں کے تحفظ کیلئے اقدامات کئے جائینگے۔مدرسہ جات کے حوالے سے باقاعدہ اصلاحات لائی جائیں گی۔پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کو دہشتگردوں کیلئے جگہ دینے کی اجازت نہیں ہوگی۔ آئی ڈی پییز کی بحالی کو فوقیت دیتے ہوئے فاٹا میں انتظامی اور ترقیاتی اصلاحات کی رفتار کو تیز کیا جائیگا۔ دہشتگردوں کا رابطہ سسٹم تباہ کیا جائیگا۔ دہشتگردوں کو انٹر نیٹ اور سوشل میڈیا پر پروپیگنڈہ کرنے اور نفرت پھیلانے والی تقاریر کی اجازت نہیں ہوگی۔باقی ملک کی طرح پنجاب کے کسی حصے میں بھی انتہاء پسندوں کو کوئی جگہ نہیں دی جائیگی۔ پہلے سے جاری کراچی اپریشن کو اسکے منطقی انجام تک پہنچایا جائیگا۔سیاسی مصالحت کے مفاد میں تمام سٹیک ہولڈرز کی طرف سے بلوچستان حکومت کو مکمل اتھارٹی دی جائیگی۔فرقہ ورانہ تشدد کے ذمہ دار عناصر کیخلاف مقدمات چلائے جائینگے۔ افغان مہاجرین کی رجسٹریشن کیلئے جامع پالیسی وضح کی جائیگی۔ صوبائی خفیہ ایجنسیوں کو دہشتگردوں تک رسائی مہیا کرنے کیلئے اور فوجداری نظام میں بنیادی اصلاحات کے ذریعے انسداد دہشت گردی کی ایجنسیوں کو مضبوط کرنے کیلئے آئینی ترمیم اور ضروری قانون سازی کی جائیگی۔قومی اتفاق رائے پر مبنی اس دستاویز سے عیاں ہے کہ قوم کے نمائندوں نے پہلے سے جاری کراچی اپریشن کو اسکے منطقی نتیجے تک پہنچانے کا فیصلہ کیا تھا۔رینجرز کو اختیارات بھی سندھ حکومت کی ریکوزیشن پر دئیے گئے تھے۔رینجرز کی کارکردگی کے حوالے سے کوئی شبہ بھی نہیں،اس پر بھی تا حال اتفاق رائے ہے کہ اپریشن کو منطقی انجام تک پہنچانے کیلئے وقت درکار ہے۔ پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور مسلم لیگ فنکشنل سمیت کسی کو اس حقیقت سے انکار بھی نہیں۔ایم کیو ایم کے تحفظات زیادہ سے زیادہ یہ رہے ہیں کہ اپریشن کی سمت درست ہونی چاہئیے جبکہ صوبائی حکمران جماعت پیپلزپارٹی کا اعتراض یہ ہے کہ رینجرز کو محدود ذمہ داریاں سونپی جائیں اور کرپشن کے حوالے سے رینجرز کو اختیارات نہیں دئیے جا سکتے۔ ہر ایک کو اپنا اپنا نقطہء نظر پیش کرنے کا حق ہے۔مگر ایک بات طے ہے کہ وفاق ہو یا سندھ، کسی کو آئین اور قانون سے باہر جانے کا حق نہیں۔اگر سندھ حکومت اصرار کرتی ہے کہ ریکوزیشن بھیجنا ان کا اختیار ہے تو یہ سچ ہے۔ اگر سندھ حکومت کہتی ہے کہ آرٹیکل 147کے تحت انہیں رینجرز کو مشروط ذمہ داریاں دینے کا اختیار ہے تو اس میں بھی کوئی شک نہیں۔ وضاحت طلب نکتہ صرف یہ ہے کہ ذمہ داریاں مشروط کرنے کا پیمانہ بھی آئین اور قانون ہی ہے۔آپ کوئی غیر قانونی غیر آئینی شرط عائد نہیں سے کر سکتے۔اگر آپ یہ کہتے ہیں کہ اپریشن کی میعاد دو ماہ ہوگی تو اس میں کوئی غیر قانونی پہلو نہیں تاہم اگر آپ یہ کہیں کہ کرپشن پر ہاتھ نہ ڈالا جائے تو یہ غیر قانونی شرط ہوگی۔کیونکہ جب انہیں دہشتگردوں کی فنڈنگ روکنے کیلئے اقدامات کرنا ہیں تو کرپٹ عناصر کے دہشت گردوں سے روابط ہونے کے ناطے انہیں ہاتھ ڈالنا قانونی ذمہ داریوں میں آتا ہے۔ صوبائی حکومت کی ریکوزیشن میں غیر قانونی حصے کو نظر انداز کرنے کا وفاق کو اختیار حاصل ہے۔ اسے صوبائی خودمختاری پر حملہ قرار دینے سے پیشتر ریکوزیشن کے غیر قانونی حصوں پر نظر ثانی کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔اگر پھر بھی ابہام باقی رہے توقانون کی تشریح کیلئے عدالت کا راستہ موجود ہے۔ تندوتیز جملوں اور الزام تراشی کا کوئی جواز نہیں۔اس کھلے راز سے کون واقف نہیں کہ کن کن سیاسی جماعتوں کے مسلح ونگ کراچی شہر کے اندر ٹارگٹ کلنگ بھتہ خوری چائنہ کٹنگ، اغوا ء برائے تاوان اور منی لانڈرنگ میں ملوث رہے ہیں اور وقت کے چیف جسٹس پاکستان خودکراچی بیٹھ کر کن لوگوں کو ذمہ دار ٹھہرا چکے ہیں۔اب اگر ان کالی بھیڑوں کا یوم حساب قریب نظر آ رہا ہے تو اس میں عوام کا کیا نقصان ہے بلکہ یہ تو عوامی مفاد کی بات ہے اس میں صوبائی خود مختاری پر حملہ کہاں سے آگیا ہے۔ بڑی مچھلیوں کیخلاف کاروائی کو وزیر اعلیٰ کی منظوری سے مشروط کرنا انصاف کا جنازہ نکالنے کے مترادف ہے مگر سمجھ سے باہر تو یہ ہے کہ دکھی عوام کے ہمہ وقت غمگسار سیاستدان عوامی مفاد کے تحفظ کی مہم پر سیخ پا کیوں ہیں ؟

ای پیپر دی نیشن