چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل مولانا محمد خان شیرانی اور کونسل کے ممبر علامہ طاہر محمود اشرفی کے درمیان جھڑپ اور ہاتھا پائی کے بعد اسلامی نظریاتی کونسل کا اجلاس ملتوی کر دیا گیا ہے۔ مولانا شیرانی نے حافظ طاہر اشرفی کا گریبان پکڑا جس کے باعث انکے دو بٹن بھی ٹوٹ گئے۔
علماءکرام کسی بھی معاشرے کےلئے ماڈل ہوتے ہیں۔ انکی شخصیت مثالی اور عوام کےلئے باعث تقلید ہوتی ہے۔ قرآن و سنت اور اسلامی تعلیمات کے آئینے میں ڈھلے علماءکرام سے معاشرے کی قیادت اور بہتری کی طرف رہنمائی کی امید ہوتی ہے یہ پرفتن دور میں بھی ثابت قدم رہ کر قوم کو صراط مستقیم پر قائم رکھنے کی قوت رکھتے ہیں۔ لیکن گزشتہ روز اسلامی نظریاتی کونسل میں جو مظاہر سامنے آئے وہ اسلامی نظریات کی ترجمانی نہیں بلکہ شدت پسندانہ کردار کے آئینہ دار ہیں۔ قوم اسلام کے نام پر دہشت گردی کے جن تکلیف دہ مراحل سے گزر رہی ہے اس میں ایسی محاذآرائی کی گنجائش نہیں جو معاشرے کو مزید تقسیم کر دے۔ چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل کو طے شدہ ایجنڈے سے ہٹ کر کسی دوسرے ایشو پر بات نہیںکرنی چاہیے تھی۔ قادیانیوں کے مسئلے کو ازسر دیکھنے کی گنجائش نکال کر ملک میں پھر مذہبی فسادات پھیلانے کی سازش ہے۔ ذمی، مرتد اور کافر کے بارے بھی کسی نئی تشریح کی ضرورت نہیں۔ قرآن مجید کی طباعت تو آئین میں طے شدہ قواعد و ضوابط کے مطابق جاری ہے۔ آج ”مثالی قرآن مجید“ چھاپنے کے درپے افراد حمایت اسلام والے نسخے کے مطابق طباعت کیوں نہیں چاہتے؟ حالانکہ اس نسخے پر انکے اساتذہ اور انکے اپنے دستخط موجود ہیں کہ اس نسخے کے مطابق قرآن کی طباعت ہوگی۔ اب قوم کو مثالی قرآن کے نسخے کے نام پر انتشار میں دھکیلا جا رہا ہے۔ گزشتہ روز ہونیوالی لڑائی کا سبب در حقیقت یہی لوگ بنے ہیں اور یہ غیر ممبر افراد اجلاس میں موجود تھے۔ ایسے مظاہر اسلامی نظریاتی کونسل جسے آئینی ادارے کے تقدس کو پامال کر رہے ہیں۔ آئین میں طے شدہ مسائل کا دوبارہ جائزہ لینے کی خاطر قوم کو مزید گروہوں میں مت تقسیم کریں۔ اسلامی نظریاتی کونسل صرف تجاویز دے سکتی ہے۔ حتمی فیصلے کےلئے پارلیمنٹ سے رجوع کرنا ہوگا۔ کیونکہ قانون سازی پارلیمنٹ کریگی۔ لہٰذا وزیر اعظم اس کا نوٹس لیکر قرآن مجید کی طباعت کے حوالے سے کسی بھی ”مثالی قرآن“ کے نسخے پر کام کرنے پر پابندی عائد کریں ۔ محکمہ اوقاف پنجاب نے پہلے ہی ”مثالی قرآن مجید“ کے نسخے پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔ اگر وزیر اعظم ایسا کر دیں تو ملک مستقبل میں پھیلنے والے فرقہ وارانہ تصادم سے محفوظ ہو سکتا ہے۔