میںنے تو ایک ملک کے وزیر اعظم کے وقار کو ملحوظ رکھتے ہوئے سواگت کا لفظ استعمال کیا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ مودی ابھی جاتی امرا میں موجود تھا کہ نئی دہلی کی سڑکوں پر اس کی تصویریں اور اس کے پتلے نذر آتش کئے جا رہے تھے اور مشتعل مظاہرین اس کے خلاف واہی تباہی بک رہے تھے۔ بھارت میںمودی کے دورے کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا کیونکہ ہر ایک کو علم ہے کہ مودی کے اصل ارادے کیا ہیں۔ اس کے اقتدار کے پہلے سال کے دوران کنٹرول لائن کی پانچ سو بار خلاف ورزیاں عمل میں آئیں،اسی کی مصلحت آمیز خاموشی کی آ ٓڑ میں بھارتی انتہا پسند جنونیوںنے نہ تو پاکستان سے جانے والے مہمانوں کو معاف کیا، نہ ا ن کے میزبانوں کو ، اور نہ بھارتی مسلمانوں کو بلکہ دلت کو بھی نشانے پر رکھا، ابھی تو لوگ مودی کے اس اعلان کے انتظار میں ہیں کہ بھارتی آئین کی کشمیر کے بارے میںمخصوص شق کوحذف کر کے اسے بھارت کے جغرافئے میں شامل کر لیا جائے۔ان نیک ارادوں کا مالک اگر لاہور میں چائے پینے کے لئے رک ہی جاتا ہے تو بھارتی عوام کی اکثریت جانتی ہے کہ یہ دھوکہ ا ور فریب کی سیاست ہے، اس کے سوا اس سے کچھ برآمد نہیں ہو گا۔ابھی تو زیادہ وقت نہیں گزرا کہ دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ کی باقاعدہ میٹنگ ہونے والی تھی کہ اسے بھارت نے یہ کہہ کر منسوخ کر دیا کہ پاکستانی ہائی کمشنر نے کشمیری حریت پسند قیادت سے ملاقات کیوں کی ہے۔ بھارتی عوام جانتے تھے کہ اسی ہائی کمشنر نے بعد میں ایک دعوت افطار کو روس کے شہر اوفا کی میٹنگ کا ماحول سازگار بنانے کے لئے منسوخ کر دیا تھا۔
بھارتی کانگرس نے سخت رد عمل کاا ظہار کیا ، ا سکا کہنا تھا کہ جس کام سے بی جے پی ،اس کے وزرائے اعظم کو روکتی رہی، وہ اس کے لیے کیسے جائز ہو گیا، یہ تاریخ کی ایک ستم ظریفی ہے کہ ا س سے پہلے لگاتار دو مرتبہ باجپائی نے پاکستان کا دورہ کیا تھا، ایک دورے کے بعد تو کارگل ہو گیا، کانگرس نے سوال اٹھایا کہ مودی کی لاہور یاترا کیا گل کھلائے گی، پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ، کانگرس نے یہ بھی پوچھا کہ کیا مودی اپنے ساتھ ممبئی سانحہ کے ذمے د اروں کو جہاز میں بٹھا کر لانے میں کامیاب رہے ہیں، اگر نہیںتو پھر وہ کیا لینے گئے۔
شاید بھارتی عوام آس لگائے بیٹھے تھے کہ دہلی ایئر پورٹ پر بھارتی طیارے سے حافظ سعید بھی ہتھکڑیوں اور بیڑیوں میں جکڑے برا ٓمدہوں گے۔
انڈین ایکسپریس نے لکھا کہ یہ دورہ مودی کے ذاتی تجارتی مقاصد کو تو بڑھاوا دے سکتا ہے مگر دیش کی سیوا نہیں کر سکتا۔ وال ا سٹریٹ جرنل میں ایک بھارتی نامہ نگار نے لکھا کہ مودی نے صرف گپ شپ کے لئے لاہور میں قیام کیا۔
انڈیا ٹو ڈے نے پاکستانیوں کا مذاق اڑانے کی ہر حد پار کر دی، اس نے لکھا کہ یہ پہلی مرتبہ ہوا کہ ایک سو بیس بھارتی باشندے لاہور ایئر پورٹ پر بغیر ویزے کے اترے، ان میں سے بائیس کو عارضی ویزے جاری کر کے جاتی امرا لے جایا گیا مگر باقی رہ جانے والے ایئر پورٹ پر دندناتے پھرے، ان کو روکنے ٹوکنے ولا کوئی نہ تھا، کوئی ا ور ملک ہوتا تو ا یسے جہاز کو لینڈنگ کی اجازت ہی نہ دیتا جس میں ایک سو سے زائد لوگوں کے پاس سفری دستاویزات نہیں تھیں اور اگر وہ زبردستی اترتا تو ایسے مسافروں کا ٹھکانہ سیدھا جیل تھا۔اس تجزیئے کا مطلب یہ تھا کہ بھارت نے پاکستانیوں کے اقتدار اعلیٰ کو جوتی کی نوک پہ رکھا ہے۔
گوگل پر اگر مودی کی لاہور ہاترا پربھارتی ردعمل کو سرچ کیا جائے تو سینکڑوں لنک مل جائیں گے مگر آفرین ہے پاکستان کے سیکورٹی نظام کی میں ان اخبارات کو کھولنے کی کوشش کر رہا ہوں تو ایک خودکار حکومتی نظام مجھ سے مطالبہ کرتا ہے کہ میں اپنے انٹرنیٹ موڈیم کی بائیو میٹرک تصدیق کروائوں۔ پتہ نہیںیہ نظام بھارتی فضائیہ کے دو طیاروں کی ایمرجنسی لینڈنگ کے دوران کہاں سویا ہوا تھا۔حکومتی نظام میرے بارے میں اس قدر چوکس ہے کہ میرے پاس ڈی ا یس ایل کے دو انٹرنیٹ کنکشنز ہیں مگر ان کی روح قبض کر لی گئی ہے۔ناچار مجھے ایک وائی فائی ونگل کا سہار الینا پڑا اور یہ بھی حکومت کی نظروں سے نہیں بچ سکا۔
مجھے اس سے بھارتی میڈیا میں کسی شخص کا یہ سوال یاد آ رہا ہے کہ حب الو طنی کا معیار کیا ہے، کوئی عام آدمی سرحد پار کر جائے تو پکڑا جاتا ہے مگر وزیرا عظم منہ اٹھا کر چلے جائیں تو ان کا وی وی آئی پروٹوکول کے ساتھ استقبال ہوتا ہے۔ٹوئٹر پر اس بھارتی شخص کا کہنا ہے کہ حب الوطنی کی شرط صرف مڈل کلاس اور فوج پر مسلط کی جاتی ہے ،سیاستدان اور حکمران جو مرضی کرتے رہیں۔
اور ادھر میںنے اپنے کالم میں مدد کے لئے چند بھارتی ویب سائٹس کھولی ہیں تو مجھے آگے بڑھنے سے روک دیا گیا ہے بلکہ میرا باقاعدہ مقاطعہ کیا جا چکا ہے۔میںنہیں جانتا کیا ایسا ہرا س شخص کے ساتھ سلوک روا رکھا جا رہا ہے جو بھارتی ویب سائٹس کھولنے کی غلطی کرتا ہے۔ آخر بھارت کے اندرونی رد عمل کا اندازہ بھارتی میڈیا ہی سے ہو سکتا ہے ، پاکستانی میڈیا تو خود سٹپٹا اٹھا ہے کہ یہ کیسا سر پرائز ہے جس میں ملک کے سیکورٹی مشیر تک کو ہوا نہیں لگنے دی گئی، نہ مشیر خارجہ کو مذاکرات میں شامل کیا گیا۔
مودی کے دورے کے بعد صرف زلزلہ ہی نہیں آیا بلکہ میرے جیسے صحافیوں کی آزادی بھی سلب کر لی گئی ہے۔کیا میری اور آپ کی آزادی بھارت سے کنٹرول کی جا رہی ہے۔
بہر حال جیسے بھی حالات ہیں ، ہمیں توا پنا کام کرناہے، اور میں یہ جاننے میں کامیاب ہو گیا ہوں کہ بھارتی میڈیا نے مودی کی لاہور یاترا کو پیرا ڈراپ سے تعبیر کیا ہے جیسے فضا سے اچانک کو ئی چھاتہ برادر آ دھمکے۔
فاروق عبداللہ جیسے بھارت نواز عناصر نے ضرور اس دورے کو خوش آئند قرار دیا ہے، بھارتی پنجاب کے اکالی لیڈروںنے بھی اسے سراہنے میں تاخیر نہیںکی، 1999 میں پرکاش سنگھ بادل اس بس میں سوار تھے جو واجپائی کو لاہورلائی تھی، اکالی قیادت فطری طور پر بی جے پی کی حلیف گنی جاتی ہے ۔ بھارت کی بائیںبازو کی پارٹیوںنے بھی ا س دورے کی حمائت کی ہے۔
مگر بھارت میں ان چند تبصروں سے آگے بات نہیں کی گئی، اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ کسی چھاتہ برادر کا دورہ دو طرفہ مذاکرات کا نعم البدل نہیں ہو سکتا اور بھارت میں کہا جا رہا ہے کہ جس کسی کو کوئی بھی خوش فہمی ہے، وہ جلد ہی دور ہو جائے گی۔پاکستانی تو ہمیشہ سے جانتے ہیں کہ بھارت کو مذکرات سے قطعی دلچسپی نہیں۔ اسے فرار کا کوئی بہانہ چاہئے، اور بہانہ نہ بھی ملے توو ہ آگرہ گئے ہوئے صدر مشرف کو واپس بھیج دیتا ہے۔