ہم جب صبح سویرے نماز کی ادائیگی قرآن پاک کی تلاوت اور ناشتہ وغیرہ کرنے کے بعد دفتریا کاروباری مرکز کی طرف روانہ ہونے لگتے ہیں توخاتون خانہ کی طرف سے کوئی نہ کوئی پیغام سماعتوں سے ضرورٹکراتا ہے۔ واپس آتے ہوئے مچھلی، چکن اوردہی بھلے وغیرہ لیتے آئیں فلاں فلاں مہمان آرہے ہیں یا مٹھائی یا کیک وغیرہ لیتے آئیں، بھتیجے ارحم یا بھانجے زیب حسن کی سالگرہ پر جانا ہے بیگمات ایسے پیغامات اور فرمائشوں میں بہت مہارت رکھتی ہیں ان دعوتوں اور سالگرہ کے سامنے دنیا جہان کے کسی سنجیدہ مسئلے کی کوئی وقعت نہیں ہوتی کیوں کہ بیگمات کے احکامات کے سامنے مزاحمت کی ہی نہیں جاسکتی، سرتسلیم خم ہی کیا جاسکتا ہے چند روز قبل ہمارے ہمسائے میں مہمانوں کی آمدورفت سے ظاہرہورہا تھا کہ ان کے ہاں کوئی تقریب یا دعوت منعقد ہورہی ہے ہم نے ہمسایوں سے پوچھا کہ یہ تقریب کس سلسلے میں ہورہی ہے توایک صاحب نے بتایا کہ گھر کے سربراہ کی سنت یعنی ختنے کی تقریب ہورہی ہے ہم نے حیران ہوتے ہوئے پوچھا کہ بچوں کی سنت کی تقریب توہوتی ہے گھرکے سربراہ کی باری اب تک التوا میں کیوں رہی؟ انہوں نے بتایا کہ ہم نے مکان بنانا ہے اس لئے ’’نیوندرے‘‘ کے لئے یہ ایک علامتی تقریب ہوتی ہے ایک روز ایک صاحب صبح ناشتے سے فارغ ہوکر سوٹ بوٹ ڈالے دفترجانے لگے توان کی بیگم صاحبہ نے کہا کہ آج شام ساڑھے چھ بجے تک گھرآجائیں ہم رات کا کھانا کسی فائیوسٹار ہوٹل میںکھائیں گے آج میں کچھ نہیں پکا رہی۔ یہ مظلوم خاوند دفتری اوقات میں دوتین بار چائے مع بسکٹ اور لنچ کے عادی تھے آج انہوں نے چپڑاسی کے پوچھنے پر درمیانی وقفوں میں چائے پینے اور لنچ کرنے سے گریز کیا بلکہ چند اہم مہمانوں کو بھی سادہ پانی اور باتوں ہی میں ٹرخا دیا ان کے دماغ میں سارا دن بیگم کی فرمائش پر مبنی چھری کانٹوں کی صدائیں گونجتی رہیں جب یہ صاحب چھٹی سے آدھ گھنٹہ قبل گھر کے لئے روانہ ہوئے توایک چوک پر پہنچ کر انہوں نے گول گپوں کی ایک ریڑھی دیکھی۔ گول گپوں کی ریڑھی دیکھ کر انہیں یاد آیا کہ کبھی گول گپے کھانے میں ان کا کوئی ثانی نہیں تھا یعنی انہیں کوئی ہرا نہیں سکتا تھا انہوں نے متعدد مرتبہ اپنے دوستوں کو گول گپے کھانے میں ہرایا تھا وہ دومنٹ میں ایک درجن گول گپے کھا لیتے تھے۔ ہاں ایک مرتبہ ان کی چھوٹی بہن نے انہیں زیادہ گول گپے کھاکرہرا دیا تھا۔ جب یہ شوہرنامدار گھرپہنچا تو اس کی بیگم فائیوسٹار ہوٹل جانے کیلئے تیار بیٹھی تھیں۔ شوہرنامدار نے خندہ پیشانی سے اپنی زوجہ محترمہ کوگاڑی میں بیٹھنے کی دعوت دی۔ گول گپوں والی مشہور دکان سے پہلے میاں نے گول گپے کھانے کی اپنی مہارت اور رفتار کا تذکرہ چھیڑدیا میاں کہنے لگا کوئی شخص مٹھائی کھانے میں مہارت رکھتا ہے اور کوئی جلیبیاں کئی لوگ کلو بھر نمک کھا جاتے ہیں میں گول گپے کھانے کا ماہرہوں مجھے اس فیلڈ میں آج تک کوئی شکست نہ دے سکا، صرف میری چھوٹی بہن نے ایک بار مجھے ہرایا تھا بیوی شوہر سے کہنے لگی یہ کون سا مشکل کام ہے۔ آپ شرط لگائیں میں آپ سے جیت جاؤں گی اسی لمحے میاں بیوی گول گپوں والی مشہوردکان کے سامنے رکے۔ دونوں ایک گول میز کے گرد رکھی کرسیوں پر بیٹھ گئے، دونوں نے گول گپے کھانا شروع کردئیے۔ میاں نے جان بوجھ کر کہا۔ اب میں مزید گول گپے نہیں کھا سکتا۔ بیوی نے ایک گول گپا اٹھایا اور اسے کھاکرجیتنے کا نعرہ بلند کیا اب رات ہوچکی تھی دونوں خوشی خوشی گھر آگئے میاں نے کتنی چالاکی سے بیوی کو فائیوسٹار ہوٹل والی دعوت سے ٹال دیا تھا ہماری حکومتیں جب الیکشن کے لئے عوام سے ووٹ طلب کرتی ہیں توکہتی ہیں کہ آپ ہم پر بوجھ نہیں ہیں ہم آپ کی خوشحالی پر دل کھول کر روپے پیسے نچھاورکریں گی ہمارا کیا جاتا ہے پیسے تو آپ ہی کے ہوتے ہیں آپ کے اردگرد دودھ اور شہد کی نہریں بہیں گی آپ ہمارے ادوار میں باغوں میں تکیہ لگائے بیٹھے ہوں گے حوروغلمان آپ کی خدمت میں آگے پیچھے پھریں گے مرادیہ کہ آپ کی تنخواہیں اتنی بڑھ جائیں گی کہ آپ ناشتے لنچ اور ڈنر فائیوسٹار ہوٹلوں میں کرسکیں گے جب حکومتیں بن جاتی ہیں او رمختلف محکموں کے وزیروں پر مشتمل کابینہ وغیرہ تشکیل پاجاتی ہے توعوام اس انتظار اور امید میں ہوتے ہیں کہ وہ ناشتے لنچ یا ڈنر کے لئے فائیوسٹار ہوٹل میں جائیں گے لیکن نئی حکومت عوام کو بہلا پھسلاکر کسی چوک پر گول گپوں کی کسی گول میز کے گرد بٹھا دیتی ہے۔
ہمارے لیڈروں کی اہم تقاریر اوران کے بیانات پر غورکریں تووہ گول گپوںکی طرح ہوتے ہیں جو بیان دیتے ہیں وہ گول ہوتا ہے اور گول بیانات میں گپ بھی بہت لمبی ہوتی ہے حکومتیں ہمیں گول گپے کھلانے میں ہمیشہ کامیاب رہتی ہیں اور ہم وجوہات اور اسباب پر غورہی کرتے رہ جاتے ہیں کہ ہم حکومتی گول گپے کیوں کھاتے ہیں گول گپے کھانا ہمارا نفسیاتی مسئلہ ہے ہمیں اس کا سوفیصد تجربہ ہے ۔
گول گپے کھانا ہمارانفسیاتی مسئلہ ہے ؟
Dec 30, 2016