گلی گلی میں شور ہے، دیکھو کہاں چور ہے

پرانی بات ہے۔ زیادہ پرانی بھی نہیں جب لاہور، گوجرانوالہ، ملتان، سیالکوٹ ہماری ثقافت کی عوامی قوت کے پہلو دار پروگراموں کے مرکز ہوا کرتے تھے۔ یہ پروگرام عوامی دنگل ہوتے تھے۔ پہلوانوں کی جوڑیاں، دھڑے بندی کے تحت اپنے پروگرام کا اشتہار دیا کرتی تھیں۔ پرو موٹر اپنے معاشی اور عزت کا سامان کرتے تھے اور پھر شہر بھر کی رونقیں پہلوانوں کی کارکردگی اور فن کے ذکر سے دوبالا ہو جایا کرتی تھیں۔ پہلوان کا ہمدرد بہت زیادہ ہمدردی حاصل کرنے کیلئے بہت زیادہ کہانیاں سنسنی خیز کہانیاں تراشتا تھا اور گلی کوچے کے نکڑوں پر تھڑے پر بیٹھ کر بچوں کو اپنے ممدوح پہلوان کی کہانی سناتا کہ وہ اتنا طاقتور ہے اور داﺅ پیچ کا ماہر ہے۔ پھر بچے سکول میں اپنے ہمجولیوں کو پہلوانوں کی کہانیاں سنایا کرتے۔ بچوں میں اپنے پسندیدہ پہلوان کی ہمدردی بڑھتی اور وہ جذباتی ہو کر دوسرے پہلوان کو گیڈر ثابت کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ جذبات بھڑکتے اور دونوں طرف کے بچے آگ بگولا ہو کر تختیوں سے اپنی ہمدردانہ جنگ شروع کر دیتے تھے۔ دنگل کے دن آنے سے پہلے کئی بچے اپنے زخمی سروں پر پٹیاں باندھے سکول سے چھٹی کر کے اپنی تعلیم کا بیڑہ غرق کر چکے ہوتے تھے۔
دنگل ہوتا تھا پھر ایک پہلوان رستم قرار پاتا تھا اور دوسرا مفتوح لیکن کشتی لڑنے کا معاوضہ دونوں وصول کرتے تھے۔ دونوں پہلوانوں کا یہ ذریعہ معاش تھا اور پروموٹر کا دانہ رزق بھی اسی دنگل کے وسیلے سے میسر آتا تھا لیکن یہ رقم تماشہ دیکھنے والوں کے ٹکٹ سے جمع ہوتی تھی۔ بالکل اسی طرح ہمارے ملک میں سیاست کے میدان کی روایت سادہ اور پُر حیرت ہے کہ حزب اقتدار اور فرینڈلی حزب اختلاف مختلف اوقات میں مختلف طرز کے دنگلوں کا اہتمام کرتی ہے۔ عوام ذرا دیر کیلئے تماشہ اہل کرم دیکھتے ہیں ایک دنگل انتخاب کے موقعہ پر ہوتا ہے۔ پھر انتخاب کے بعد ہوتا ہے۔ کبھی اسمبلی کے ایوان میں ہوتا ہے اور کبھی سڑکوں پر ہوتا ہے۔ دنگل کے شوقین یہ جانتے ہیں کہ دنگل میں اکھاڑے کی بہت اہمیت ہوتی ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے کرکٹ کے کھیل میں پچ کی اہمیت ہوتی ہے۔ سیاسی دنگل میں اکھاڑہ بھی عوام ہوتے ہیں جس پر سہاگہ پھیر پھیر کر اس کی مٹی سرمہ کر دی جاتی ہے۔ ہاں بالکل اسی طرح ہر سیاسی دنگل میں عوام کی ہڈیوں کو چکنا چور کر کے سرمہ بنا دیا جاتا ہے حزب اقتدار کے فرعون قوت، پہلوان اور حزب اختلاف کے طرحدار قسم کے سیاستدان عوام کے پسپا شدہ وجود پر بنے ہوئے اکھاڑے پر ساون کے اندھے کی طرح کود پھاند کرتے ہیں۔ لیکن عوام مجال ہے کہ چوں کریں یا چراں کریں۔
یہ پاک دھرتی پاکستان ہے۔ مظلوم دھرتی، مظلوم پالیسیوں کی آخری آما جگاہ جہاں ہر وطن فروش، سرد ضمیر اور لالچ ضمیر ڈنڈا برداروں کا قبضہ ہے۔ عوام بے چارے سانس تو لیتے ہیں لیکن فضاﺅں میں گھٹن اور میلاپن ہے اس لئے ان کی زندگی کا ہر سانس خوف کی فضا میں جسم کو زندہ رکھتا ہے۔ انکے سانس خوف کی فضا کے قیدی ہیں۔ دونوں طرف کے پہلوانوں کے جلوسوں میں تگنی کا ناچ ناچتے ہیں اور جلسوں میں ترے جانثار بے شمار بے شمار کے نعرے لگاتے ہیں۔ مرے جاتے ہیں۔ مٹے جاتے ہیں اور دمادم ہر دم مست مست انداز میں مدہوش اپنی وقت کٹی کا سامان کرتے ہیں۔ ابھی کل ایک تازہ ترین اجتماع ہوا۔ ایک سیاسی جماعت کی قائدہ مرحومہ کی برسی کا اہتمام تھا۔ صوبے کی حکومت نے عوام کے خون پسینے کی کمائی سے بھرے ہوئے خزانے کا منہ کھولا، اخبارات میں بڑے بڑے اشتہارات چھپوائے اور عوام کی روح کو ایصال عذاب کیا بالکل اسی طرح سیاسی لیڈران حکومت کے خزانے سے اپنی تصویریں، تحریریں، تقریریں اور پرانی تدبیروں کو عوامی خدمت کے نام پر چھپواتے ہیں، عوام ذرا دیر کےلئے خوش ہوجاتے ہیں۔ پھر جب یہ سیاسی لیڈر حکومت کی کشتی سے اتر ساحل حسرت پر آرام کرتے ہیں تو دوسری حکومت سب سے پہلے یہ اذیت ناک خبر سناتی ہے کہ قومی خزانے سے گزشتہ حکومت نے بے دریغ خرچ کیا اور زیادہ دولت اپنے نام و نمود کیلئے اشتہاری مہم میں خرچ کی ہے۔لاڑکانہ میں نو عمر اور ادھا فکر لیڈر مسٹر بلاول زرداری اور انکے محترم والد بزرگ نے برسی کے موقعہ پر اپنے سیاسی لیڈروں اور مداحوں کی سنگت میں ایک سیاسی میلے کا پرجوش اہتمام کیا تھا۔ لوگوں کی غمی خوشی اب ساتھ ساتھ رہتی ہے۔ بلاول بھٹو اپنی مرحومہ والدہ کا ذکر پورے غم و جوش سے کرتے ہیں اور مخالفین پر تنقید پورے جوش اور ہوش سے کرتے ہیں۔ انکی تحریر شدہ تقریر پر کوئی دل جلا اپنی قلبی اذیت کا عکس تحریر کرتا ہے اور لڑا دے ممولے کو شہباز سے کی تصویر بنتی ہے کہ لڑا دے بلاول کو حالات سے۔ظاہر ہے کہ بلاول ابھی تقریر اور سیاست سیکھ رہا ہے۔ البتہ تقریر کسی کی ہوتی ہے اور سیاست کسی کی۔ بلاول کی زبان اور جذبات ہوتے ہیں۔ عوام محظوظ ہوتے ہیں، رنگ برنگ تبصرے کرتے ہیں برسی کی تقریر میں بلاول نے جو مشق خطابت کی ہے۔ وہ اس میں بہت کامیاب رہے۔ البتہ سیاست کی مشق میں انہیں اپنے والد بزرگ کی عملی توجہ کی ضرورت ہے لیکن وہ تو دوبئی میں قیام فرما ہیں اور اپنی پوری سیاسی جانشینی اپنے فرزند بلند اختر کو منتقل کرنے میں بہت احتیاط کر رہے ہیں۔ ان کا یہ نو عمر، نہایت جوشیلا اور بالکل ناتجربہ کار قومی درجے کی پارٹی کا لیڈر جس طرز کلام میں اپنے ضمیر سیاسی کا اظہار کرتا ہے۔ وہ نہایت ہی غیر محتاط ہے۔ اس انداز خطاب سے ان کے مخالفین کو بہت زیادہ قائدہ ہوتا ہے۔ مرحومہ بے نظیر کی برسی پر نوعمر لیڈر نے اپنے لچھے دار اور الزامات کی بھرمار سے بھرے خطاب میں آخر اس پرانے، بچگانہ اور سوقیانہ حملے پر تان توڑی کہ ”گلی گلی میں شور ہے، نواز شریف چور ہے“۔ بالکل اسی طرز کی آوازیں کسی دور میں جب نواز شریف حزب اختلاف میں رہتے ہوئے اپنے اقتدار کے راستے صاف کر رہے تھے۔ گلیوں، سڑکوں کے مظاہروں میں گونجتی تھیں کہ ” گلی گلی میں شور ہے بے نظیر چور ہے“ لیکن میثاق لندن بھی تو ایک سیاسی ڈھال ہے۔ میاں صاحبان اور مرد سندھ اسے برمحل استعمال کرتے ہیں۔کون چور اور کون مظلوم، سب جانتے ہیں لیکن ان کو پکڑنے کیلئے ہمت کہاں؟

ای پیپر دی نیشن