”مُلاّ سیاست کرتا رہے“۔ ناکام ہوتا رہے گا!

Dec 30, 2016

اثر چوہان

ایک مدّت سے ”مولانا“ کہلوانے والے فضل اُلرحمن نے اب خود مُلاّ اور مولوی کی بحث چھیڑ دی ہے۔ اُنہوں نے کہا ہے کہ ۔” مُلّا / مولوی سے چُھٹکارا ممکن نہیں ۔ نکاح اور جنازہ بھی مُلاّ یا مولوی ہی پڑھاتا ہے “۔ یہاں تک تو درست ہے لیکن مولانا فضل اُلرحمن صاحب کا یہ فرمان / پیش گوئی بحث طلب ہے کہ ”اب سیاست بھی مُلاّ ہی کرے گا“۔ کیا خُدانخواستہ سپریم کورٹ آف پاکستان / الیکشن کمِشن آف پاکستان 2018ءکے عام انتخابا ت میں قومی اور صوبائی اسمبلی کے اُن تمام مسلمان امیدواروں کو نا اہل قرار دے دیں گے جن کے ناموں کے ساتھ ۔ مولانا ، مولوی یا مُلاّ کا ” سابقہ “ نہیں لگا ہُو گا ؟۔ تو معزز قارئین و قاریات!۔ کیوں نہ مولانا ۔ مُلّا اور مولوی کے القابات پر بحث کرلی جائے؟۔شاعرِ مشرق ، مصّورِ پاکستان علاّمہ محمد اقبالؒ نے اپنی ایک نظم میں اللہ تعالیٰ کو ” مولا“ کے نام سے مخاطب کرتے ہُوئے کہا ہے....
مرے مولا، مجھے صاحب جنُوں کر!
علاّمہ اقبالؒ صاحبِ جنُوں تھے ۔ اُسی جنُوں کے صدقے اُنہوں نے مسلمانوں کے لئے ایک الگ وطن کا خواب دیکھا تھا ۔ اپنی ایک اور نظم میں علاّمہ اقبالؒ نے (کائناتِ الٰہی کے آقا اور سردار) نبی اکرم کا تذکرہ کرتے ہُوئے کہا....
وہ دانائے سَبل ، ختم اُلرسل ، مولائے کُل جِس نے
اپنے ایک اور شعر میں علاّمہ اقبالؒ نے ( حضور کے اِس فرمان کے مطابق کہ ) ۔ ” جِس کا مَیں مولا ہوں اُس کا علیؓ بھی مولا ہے“ ۔ کہا کہ....
کبھی مولا علیؓ ، خَیبر شِکن عشق!
عظیم مرثیہ نگار مِیر انیس نے نواسہ¿ رسول حضرت امام حسینؓ کا تذکرہ کرتے ہُوئے کہا ....
یہ تو نہ کہہ سکے کہ ،شَہ مَشرقَین ہُوں
مولا نے سر جُھکا کے کہا ، ” مَیں حُسینؓ ہُوں
مسلمانوں میں عربی زبان اور علومِ دینی کے تعلیم یافتہ اشخاص کے لئے اُن کے ناموں کے ساتھ ۔ ” مولانا“ کا سابقہ لگا یا جاتا ہے ۔ مولانا کے معنی ہیں ۔ ” اے میرے مولا ! “۔ بعض اوقات لفظ مولانا سے مراد مولانا جلال اُلدّین رُومی ؒیا مولانا رُوم ؒکے لئے جاتے ہیں ۔ علاّمہ اقبالؒ ، مولانا رُوم ؒ کو اپنا مُرشد تسلیم کرتے تھے اور وہ پِیر رُوم ؒ/ پِیر رُومیؒ کی رُوحانیت اور تصّوف سے بہت مُتاثر تھے ۔ اُنہوں نے کہا کہ....
صُحبت ِ پِیر روم ؒسے ، مجھ پہ ہُوا یہ راز فاش
لفظ ” مولوی“ عالموں کا لقب ہے۔ مُدرّس اور معلّم کو بھی تعظیماً مولوی۔ ہی کہا جاتا تھا / ہے ۔ مولانا رُومؒ کی مثنوی کے بارے میں کہا گیا کہ....
مثنوی¿ معنوی¿ مولوی
ہست قُرآں ، در زبانِ پہلوی
یعنی۔ مولانا رومؒ کی مثنوی ، پہلوی ( فارسی ) زبان میں قرآن پاک ہے“۔ پنجابی کے صُوفی شاعر حضرت سُلطان باہوؒ (1629ء۔ 1690ئ) نے یزّید اور اُس کے دور کے عالموں کے بارے میں کہا تھا کہ....
جے کر دِین ، عِلم وِچّ ہوندا
تاں سرِ نیزے ، کیوں چڑھدے ہُو
اٹّھاراں ہزار ، عالِم آہا
اَگّے حسینؓ دے ، مردے ہُو
یعنی ۔ ” اگر دِین اِسلام ۔ عِلّم میں ہوتا تو ( کربلا کے میدان میں اہلِ بَیتؓ کے ) سروں کو نیزوں پر کیوں چڑھایا جاتا ؟ ۔ (سانحہ کربلا کے وقت یزیدی سلطنت میں 18 ہزار عُلماءتھے ) ۔ اُنہوں نے امام حسینؓ کے لئے اپنی جانیں قُربان کیوں نہ کردیں؟“۔ متحدہ ہندوستان میں یزید کی نہیں انگریزوں کی حکومت تھی۔ قائدِاعظم کی قیادت میں تحریکِ پاکستان جاری تھی تو داراُلعلوم دیو بند کے حق پرست عُلماءنے مولانا اشرف علی تھانویؒ ، مولانا شبیر احمد عثمانی ؒ، مولانا ظفر احمد عثمانیؒ اور مولانا مفتی محمد شفیع ؒاور اُن کے ساتھیوں کی قیادت میں قائداعظمؒ کی حمایت کی لیکن قیامِ پاکستان کی مخالف متعصب ہندوﺅں کی جماعت انڈین نیشنل کانگریس کے باپو موہن داس کرم چند گاندھی کے چرنوں میں بیٹھنے والے اور کانگریس کے صدر ”اِمام اُلہند“ کہلانے والے مولانا ابو الکلام آزاد اور داراُلعلوم دیو بند کے ہی کانگریسی مولویوں نے قیامِ پاکستان کی مخالفت کی تھی۔
تحریکِ پاکستان کے دوران لاہور کے علاقہ ” پیسہ اخبار“ میں ، پاکستان کی مخالف ، مولویوں کی ایک اور تنظیم ” مجلسِ احرار اسلام“ کے زیراہتمام جمعیت عُلمائے ہند کے مولانا غلام غوث ہزاروی کی صدارت میں منعقدہ جلسے میں مجلسِ احرار کے ایک لیڈر مولّوی مظہر علی اظہر المعروف مولویِ اِدھر علی اُدھر نے قائداعظمؒ کے بارے میں ہذیان گوئی کرتے ہُوئے یہ شعر پڑھا تھا....
ایک کافرہ کے لئے ہُوا ہے کافر
یہ قائداعظم ہے کہ ہے کافرِ اعظم
مولانا فضل اُلرحمن کے والدِ مرحوم مولانا مفتی محمود اُن دِنوں بڑے لیڈر نہیں تھے لیکن سٹیج پر بیٹھے تھے ۔ قیامِ پاکستان کے بعد کانگریسی مولویوں کی ” جمعیت عُلمائے ہند “ کی باقیات کے اب دو گروپ ہیں۔ جمعیت عُلماءاسلام ( مولانا سمیع اُلحق ) اور جمعیت عُلماءاسلام ( مولانا فضل اُلرحمن گروپ) ۔ مولانا فضل اُلرحمن اپنی جمعیت کے امیر ہیں ۔ قیامِ پاکستان کے بعد مولانا مفتی محمود کا یہ ” اعترافِ ثواب“ ریکارڈ پر ہے کہ ۔ ” خُدا کا شُکر ہے کہ ہم پاکستان بنانے کے گُناہ میں شامل نہیں تھے“۔
وفاقی وزیر کی مراعات کے ساتھ چیئرمین کشمیر کمیٹی ( سرکاری پروٹوکول کے ساتھ ) مولانا فضل اُلرحمن کی قیادت میں اُن کے مسلک کے عُلما کا وفد اپنے لئے رُوحانی روشنی کا منّبع ۔ داراُلعلوم دیو بند کی تقریبات میں شرکت کے لئے بھارت کے دورے پر جاتا ہے ۔ اگست 2005ءمیں داراُلعلوم دیو بند کے مُہتمم مولوی مرغوب اُلحسن نے ممبئی کے ایک اخبار کو انٹرویو دیتے ہُوئے پنگا لِیا تھا کہ ۔” محمد علی جناح نماز نہیں پڑھتے تھے ، شراب پیتے تھے ۔ مَیں انہیں مسلمان نہیں سمجھتا“۔ اُن دِنوں صدر جنرل پرویز مشرف کی سرپرستی میں مسلم لیگ ق کی حکومت تھی ۔ وہ اور مسلم لیگ کے دوسرے گروہ خاموش رہے لیکن ڈاکٹر مجید نظامی صاحب نے ” نوائے وقت “ میں اور مَیں نے اپنے روزنامہ ” سیاست“ لاہور میں مولوی مرغوب اُلحسن کی خوب دُرگت بنائی تھی۔ مولوی مرغوب اُلحسن اب ’ ’ آنجہانی“ ہو چکا ہے۔
31 مارچ 2013ءکو علاّمہ اقبالؒ کے نام سے اقبال پارک کے زیرِ سایہ اپنی ”اسلام زندہ باد کانفرنس“ میں اپنے بزرگوں کی یادوں کے چراغ روشن کرتے ہُوئے کہا تھا کہ ۔ ” بھارت کے ہندو اب بھی ایک قوم ہیں لیکن برصغیر کے مسلمانوں کو تین قوموں میں تقسیم کردِیاگیا ہے ۔ بھارت کے مسلمان ، پاکستان کے مسلمان اور بنگلہ دیش کے مسلمان “۔ اِس کے باوجود 11 مئی 2013ءکے عام انتخابات میں مولانا فضل اُلرحمن اور مولویوں کا کوئی بھی گروہ بھاری مینڈیٹ حاصل نہیں کر سکا ۔ مولانا فضل اُلرحمن کا یہ بیان آن ریکارڈ ہے کہ ۔ ” یہ درست ہے کہ انتخابات میں عوام ہمیں بھاری مینڈیٹ نہیں دیتے لیکن ہم حکومتیں تو گرا سکتے ہیں “۔ مولانا فضل اُلرحمن اور دوسرے مولانا صاحبان ، مولوی صاحبان اور مُلاّ صاحبان ۔ ” کچھ دو اور کچھ لو “ ۔کی سیاست کرتے ہیں ۔ کرتے رہیں ۔ ناکام ہوتے رہیں۔ علاّمہ اقبالؒ نے تو پہلے ہی کہہ دِیا تھا کہ....
دِین مُلاّ فی سبیل اللہ فساد!
جب بھی انتخابات ہوتے ہیں عوام مصّورِ پاکستان کے اِس فرمان کو یاد رکھتے ہیں ۔ مُلاّ ﺅں کو بھاری مینڈیٹ نہیں دیتے ۔ مولانا فضل اُلرحمن صاحب ۔ ” مُلاّ سیاست کرے گا “۔ شوق سے کرے ۔ ناکام بھی ہوتا رہے گا۔

مزیدخبریں