کرسمس اور اسلام حقائق کی روشنی میں

Dec 30, 2017

عتیق یوسف ضیاء

انسانی فطرت میں یہ بات پائی جاتی ہے کہ جب بھی وہ خوش ہوتا ہے تو اکثر و بیشتر حدود اللہ سے تجاوز کر جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ آسمانی مذاہب نے ان تقریبات، عیدوں اور تہواروں کو پاکیزہ رکھنے کی ہمیشہ تاکید کی ہے لیکن حضرت انسان کی خواہش نفس کی تکمیل کے آگے جہاں مقدس الہامی کتب اور صحائف نہ بچ سکے وہاں یہ بے چاری عیدیں اور تہوار کیا چیز ہیں؟ کرسمس 2 الفاظ کرائسٹ اور ماس کا مرکب ہے۔ کرائسٹ مسیح ؑ کو کہتے ہیں اور ماس اجتماع ، اکھٹا ہونا یعنی مسیح کے لیے اکٹھا ہونا، مسیحی اجتماع یا یومِ میلاد مسیح ؑ، یہ لفظ تقریباً چوتھی صدی کے قریب قریب پایا گیا، اس سے پہلے اس لفظ کا استعمال کہیں نہیں ملتا ۔ دنیا کے مختلف خطوں میں کرسمس کو مختلف ناموں سے یاد کیا اور منایا جاتا ہے۔ بڑا دن، یول ڈے، نیٹوئی اور نوائل ڈے نہ صرف مسیح ؑکی تاریخ پیدائش بلکہ سن پیدائش کے حوالے سے بھی مسیحی علماء میں شدید اختلاف پایا جاتا ہے، عام خیال ہے کہ سن عیسوی AD جو کہ Anno Domini کا مخفف ہے جس کے معنی ہیں ہمارے خدا وند کا سال مسیح ؑ کی پیدائش سے شروع ہوتا ہے مگر قاموس الکتاب اور دیگر مسیحی کتب کی ورق گردانی سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ مسیح ؑ کی ولادت باسعادت 4 یا 6 ق م میں ہوئی ۔ قاموس الکتاب میں 4 ق م دی گئی ہے جبکہ مائیکل ہارٹThe Hundredمیں 6 ق م تسلیم کرتا ہے۔ مسیحی کلیسائوں میں مسیح ؑ کی تاریخ پیدائش کے اختلاف کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ رومن کیتھولک اور پروٹسٹنٹ کلیسا اسے 25 دسمبر کو، مشرقی آرتھوڈوکس کلیسا 6 جنوری کو اور ارمنی کلیسا 19جنوری کو مناتا ہے۔۔ تیسری صدی عیسوی میں اسکندریہ کے کلیمنٹ نے رائے دی تھی کہ اسے 20 مئی کو منایا جائے ، لیکن 25 دسمبر کو پہلے پہل روم (اٹلی) میں بطور مسیحی مذہبی تہوار مقرر کیا گیا تاکہ اس وقت کے ایک غیر مسیحی تہوار، جشن زحل Saturnaliaکو (یہ رومیوں کا ایک بڑا تہوار تھا، اس روز رنگ رلیاں خوب منائی جاتی تھیں) جو سورج کے راس الجدی پر پہنچنے کے موقع پر ہوتا تھا، پسِ پشت ڈال کر اسکی جگہ مسیح ؑ کی سالگرہ منائی جائے(قاموس الکتاب ص147) چونکہ رومی قوم میں مسیحی تعلیمات کو جوں کا توں پہنچانا ایک مشکل بلکہ نا ممکن سی بات معلوم ہوتی تھی اسی لئے مسیحی مبلغین نے رومی مذہب وتہذیب کو Chrischanise کرنے کی بجائے Chrischanity کو Romaniseکرنے کا فارمولہ اپنایا جو کہ بہر حال کامیاب رہا یہی وجہ ہے کہ مسیحی مذہب میں ایک سے زیادہ عقائد و تہوار ایسے ہیں جن کا تاریخی حوالے سے جائزہ لیاجائے تو بات دو اور دو چار کی طرح واضح ہو جاتی ہے۔(انجیل لوقا ، باب ، آیت نمبر 26 تا 31 میں لکھا ہے ) میں چھٹے مہینے میں جبرائیل فرشتہ خدا کی طرف سے گلیل کے ایک شہر میں جس کا نام ناصر تھا ایک کنواری کے پاس بھیجا گیا اورفرشتہ نے اسے کہا کہ اے مریم خوف نہ کر کیوں کہ خداوند کی طرف سے تجھ پر فضل ہوا ہے اور دیکھ تو حاملہ ہو گی اور تیرے بیٹا ہوگا تو اس کا نام یسوع رکھنا۔

ہم جانتے ہیں کہ جب مریم ؑ کو مذکورہ بالاپیغام دیا جا رہا تھا تبGregorian Calendarکا تو تصور بھی نہیں تھا 525 عیسوی میںDionysius Exiquusکے مشورے پر عیسوی کیلنڈر کی بنیاد رکھی گئی چنانچہ مذکورہ بالا آیت میں چھٹا مہینہ یقینا یہودی کیلنڈر کا ہی ذکر کیا گیا ہے اور یہودی کیلنڈر کا چھٹا مہینہ الول کا ہوتا ہے جو Gregorian Calendar کیمطابق اگست میں آتا ہے ۔ نیچے دئیے گئے کیلنڈر سے بات آسانی سے سمجھ میں آجائے گی یعنی اگر مریم ؑ کو یہودی چھٹے مہینے میں الول میں بشارت ملتی ہے تو نو ماہ بعد مسیح ؑ کی پیدائش یہودی مہینہ ایار میں ہونا بنتی ہے یعنی اپریل یا مئی جو کہ عین گرمی کے موسم میں ہوتا ہے جبکہ دسمبر کے مہینے کا مسیح ؑ کی پیدائش سے دور کا بھی تعلق نہ ہے۔ 4 صدیوں تک 25دسمبر تاریخ ولادت مسیح ؑ نہیں سمجھی جاتی تھی ۔530ء میں سیتھیا کا ڈایونیس اکسیگز نامی ایک راہب جو ایک منجم بھی تھا، تاریخ ولادت مسیح ؑکی تحقیق اور تعین کے لیے مقرر ہوا، سو اُس نے حضرت مسیح ؑ کی ولادت 25 دسمبر مقرر کی کیونکہ مسیح ؑسے پانچ صدیاں قبل 25 دسمبر مقدس تاریخ سمجھی جاتی تھی ۔ بہت سے دیوتائوں کا اس تاریخ پر یا اس سے ایک دو دن بعد پیدا ہونا تسلیم کیا جا چکا تھا، چنانچہ راہب نے آفتاب پرست اقوام میں عیسائیت کو مقبول بنانے کے لیے حضرت عیسیٰ ؑ کی تاریخ ولادت 25 دسمبر مقرر کر دی۔ قرآن مجید کی سورۃ مریم پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح ؑکس موسم میں پیدا ہوئے پھر دردِ زہ اُسے (مریم علیہ السلام کو)کھجور کے تنے کی طرف لے آیا۔پھر اُس (فرشتے) نے آواز دی کہ غم نہ کر، یقیناً تیرے رب نے تیرے نیچے ایک چشمہ جاری کر دیا ہے اور کھجور کے تنے کو اپنی طرف ہلا، وہ تجھ پر تازہ پکی ہوئی کھجوریں گرائے گا تو کھائو اور پیو اور آنکھیں ٹھنڈی کرو (سورہ مریم 22 تا 25)، اس بات پر تو سب کا اتفاق ہے کہ مسیح ؑ کی جائے پیدائش ریاست یہودیہ کے شہر بیت اللحم میں ہوئی جیسا کہ حدیث میں آتا ہے، بیت ا للحم حیث ولِد عیسیٰ اور اس علاقے میں موسم گرما کے وسط یعنی جولائی، اگست میں ہی کھجوریں ہوتی ہیں۔ قرآن مجید کے ذریعے اللہ نے یہ امر واضح کیا کہ حضرت مسیح ؑکی ولادت کھجوریں پکنے کے مہینے جولائی یا اگست کے کسی دن میں ہوئی ۔
دنیا میں بے شمار لوگ ایسے پائے جاتے ہیں جو محض نمود و نمائش کیلئے اپنی تاریخ پیدائش کچھ ایسے دنوں سے منسوب کر لیتے ہیں جو قومی یا عالمی سطح پر معروف ہوتے ہیں، ایسے لوگوں کے یوم ولادت پر مبارک باد دینا بھی خلاف واقعہ ہے جبکہ کسی ایسی شخصیت اور دن کو ماننا اور اس کے بارے میں مبارک باد پیش کرنا کہ جن کے متعلق اول تو یہ بات واضح ہے کہ ماضی میں ان تاریخوں میں سورج دیوتا ، سیاروں یادیگر بتوں کی پیدائش کا جشن منایا جاتا تھا۔ دوم مسیح علیہ السلام کی پیدائش کا دن تو درکنار سن پیدائش بھی معلوم نہیں، سوم یہ کہ عیسائیوں کا جس دن کے بارے میں عقیدہ یہ ہو کہ آج کے دن یعنی25 دسمبر کو اللہ کا بیٹا پیدا ہوا تھا (معاذ اللہ)، ایک مسلمان کسی کو اس پر کیسے مبارک دے سکتا ہے؟ یاد رکھیں یہ وہ بات ہے جس کے بارے میں اللہ تعالی ارشاد فرماتے ہیں اور انہوں نے کہا رحمن نے کوئی اولاد بنالی ہے، بلاشبہ تم ایک بہت بھاری بات (گناہ) تک آپہنچے ہو۔ قریب ہے کہ اس بات سے آسمان پھٹ پڑیں اور زمین شق ہو جائے اور پہاڑ گِر پڑیں کہ انہوں نے رحمن کیلئے کسی بیٹے کا دعوی کیا۔ لہٰذا مسیحی حضرات کو مبارک باد دینا یا اس ضمن میں کسی بھی تقریب میں شرکت کرنا اسلامی نظریے کیمطابق درست نہیں، مگر افسوس کہ ہمارے کچھ نام نہاد علمائے کرام اور آج کا ماڈریٹ مسلمان خواہ مخواہ غیروں کی تہذیب و تمدن سے مرعوب نظر آتا ہے اور بے علمی و جہالت اور نام نہاد روشن خیالی کے سبب نہ صرف مبارک باد اور خوشی کا اظہار کرتاہے بلکہ مسلمان بھی اس موقع پر برپا کی جانیوالی شراب و شباب کی محافل میں شریک ہو کر اظہار یکجہتی کا عملی نمونہ بھی پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

مزیدخبریں