یہ 1985ء کا واقعہ ہے میرے والد الحاج محمد امین بٹ ممبر صوبائی اسمبلی کے امیدوار تھے۔ احباب دستکاری سکول اور لائبریری سے انہوں نے خدمت خلق کا بیڑا اٹھایا اور پھر سالہاسال خدمت خلق سے انہیں عوام کی محبوبیت حاصل ہوئی۔ الیکشن کے دن عوام کا جوش وجذبہ دیدنی تھا، شام تک اطلاع آئی ہم جیت گئے‘ٹی وی پر بھی خبر چل گئی۔ میرے والد نے شکرانے کے نفل ادا کیے۔ دوسرے دن گیارہ بجے کے قریب میں اٹھا تو اطلاع ملی ہم نشست ہار گئے ہیں۔ میں نے دیکھا بابا پھر سربسجود نفل ادا کر رہے ہیں۔ جوانی کے دن تھے میں سخت غصے میں تھا‘ انتہائی جذباتی انداز میں میں نے بابا کو کہا! آپ یہ خبر سن کر بھی نفل ادا کر رہے ہیں؟ بابا مجھے جذباتی دیکھ کر مسکراتے رہے اور بڑے نرم لہجے میں کہا پپو! رات کو نفل اس لیے ادا کیے کہ اس مالک نے مجھے فتح عطا کی‘ اب یہ نفل اس لیے ادا کیے کہ شاید میں یہ ذمہ داری اٹھانے کیلئے پوری طرح تیار نہ تھا۔ اللہ نے کرم کیا اور میرے ناتواں کندھوں پر ذمہ داری نہیں ڈالی‘ جب وقت آئے گا وہ خود ذمہ داری دے گا۔ میں اس وقت نہ سمجھا اور یہ منطق میری سمجھ میں نہ آئی۔ دوسال گزرے تو وہ لاہور کے ڈپٹی میئر منتخب ہوگئے۔ صوبائی اسمبلی کے 5حلقے ان کے زیراہتمام تھے اور انکے فنڈز بھی‘ اس دن مجھے سمجھ آئی کہ حقیقت کیا ہے۔
؎پختہ تر ہے گردش پیہم سے جام زندگی
ہے یہی اے بے خبر راز دوام زندگی
پانامہ کے نتیجے میں نکلنے والے اقامے کا ڈرامہ شروع ہوا تو میرے دوست احباب حیران وپریشان تھے۔ پھر پتہ چلا محمد نوازشریف نے جناب شہبازشریف کو وزیراعظم نامزد کردیا۔ بعد میں ٹاک شو مختلف پیش گوئیاں ایسے کرتے رہے جیسے مستقبل ایک فلم کی طرح ان کو دکھا دیا گیا ہے۔ وزیراعلیٰ شہبازشریف نہ ایم این اے بنے اور نہ وزیراعظم۔ مختلف تجزیے‘ تبصرے‘ اندازے اور پیش گوئیوں کا طوفان اٹھا۔ دوسری طرف کبھی سانحہ ماڈل ٹائون والی رپورٹ کا قصہ چھیڑا جاتا اور کبھی حدیبیہ کا گڑا مردہ سامنے آتا رہا۔ میں خاموشی سے ہر بات سنتا‘ میرے سیاسی وصحافی دوستوں کی حالت غیر ہوتی رہی اور سنبھلتی رہی‘ میں صرف مسکرا دیتا۔ آخر جب ڈیمانڈ زیادہ بڑھی تو میں نے ایک کالم لکھا وہ بھی یورپ کے پرفضا اور خاموش ماحول میں۔ میں نے وضاحت کی کہ جتنا میں میاں برادران کو جانتا ہوں یہ دونوں ایک سکے کے دو رخ ہیں‘ ان کے درمیان ہوا بھی کراس نہیں کرسکتی۔ باقی سب بے پرکی فضولیات ہیں۔ یہی ہوا‘ اب تک دونوں ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں اور یہی سکہ رائج الوقت ہے۔
ہم حلقے میں بانیٔ پاکستان حضرت قائداعظم محمد علی جناح کی پیدائش اور ثانی قائداعظم میاں محمد نوازشریف کی سالگرہ اکٹھی مناتے ہیں اور کیک کاٹتے ہیں۔ انتظامی اجلاس میں خبر ملی کہ 2018ء کیلئے محمد شہبازشریف مسلم لیگ(ن) کی طرف سے وزیراعظم ہوں گے۔ میرے ساتھیوں کے لیے بریکنگ نیوز تھی‘ مجھے جب پوچھا گیا تو میں بابا کی طرح صرف مسکرا دیا اور اوپر جو واقعہ آپ کو سنایا ہے وہ انہیں سنا دیا۔
محمد نوازشریف سکہ بند سیاستدان ہیں‘ تجربے کار اور سب سے زیادہ قائدانہ صلاحیتوں سے مالامال قومی اور بین الاقوامی سیاست اور حالات سے پوری طرح باخبر ہیں۔ الیکشن کے فوراً بعد دھاندلی کا الزام‘ دھرنا ون‘ دھرنا ٹو اور پھر پانامہ کیس وہ مستقبل کے تمام مراحل سے بخوبی واقف تھے‘ انہیں یہ بھی علم تھا کہ اب کیا ہونیوالا ہے اور انہیں ان حالات میں سیاست کس طرح کرنی ہے‘ بیانیہ کیا ہونا چاہیے؟ اور عمل‘ ردعمل پر کیا پوزیشن ہو۔ یوں سمجھ لیں یہ شطرنج کی بساط ہے اور اس میں محمد نوازشریف کی لیڈر شپ کا امتحان بلکہ کڑا امتحان ہے۔ نفل بہرحال ہر حال میں ادا کرنے ہی کرنے ہیں۔
2018ء میں محمد شہبازشریف 2023ء تک وزیراعظم منتخب ہوں گے‘ یہ مسلم لیگ(ن) کا نہیں پاکستانی قوم کا فیصلہ ہے۔ محمد نوازشریف مفاہمت کیساتھ ساتھ اپنے پتے انتہائی مہارت کے ساتھ کھیل رہے ہیں۔ وقت اس تمام صورتحال کو محمد نوازشریف کی صلاحیتوں کے اعتراف میں ہمیشہ یاد رکھے گا۔محمد شہبازشریف کا تعارف ’’عملی سیاست دان‘‘ کا ہے۔ انہوں نے گزشتہ تین چار دہائیوں میں بہت سے ناممکنات کو ممکن بنایا۔ 2018ء کے الیکشن میں کامیابی اور پالیسیوں کے تسلسل کو برقرار رکھنے کیلئے اب ترپ کا پتہ میدان عمل میں آئے گا۔ محمد نوازشریف کیلئے وزیراعظم بننا یا نہ بننا اب کوئی معانی نہیں رکھتا۔ قوت کا اصل سرچشمہ انہی کی ذات ہے۔ اگلے 50سال سیاست کا محور نوازشریف اور اینٹی نوازشریف ہوگا۔ محمد نوازشریف تو وزیراعظم شہبازشریف کیلئے شکرانے کے نوافل بھی ادا کرچکے ہونگے۔ وہ اب صرف اصولی اور نشریاتی بیانیے پر قائم رہ کر اور ملکی سیاست کو درست قبلہ دے کر عالمی سیاست کرینگے کیونکہ انکے کردار ادا کرنے کا وقت آپہنچا۔
محمد شہبازشریف گزشتہ کارکردگی کو دو ضرب چار اور چار ضرب آٹھ کی رفتار کے ساتھ سامنے لائینگے اور یہ کردار وہی ادا کرسکتے ہیں۔ محمد نوازشریف کا عالمی سیاست میں کردار ایک علیحدہ کالم کا متقاضی ہے‘ اس لئے اس کو پھر کبھی مناسب وقت پر لکھوں گا‘ سردست مریم نواز اور حمزہ شہباز کے بارے صرف ایک جملہ کہ مریم بی بی 2018ء میں منتخب ہوکر وزارتِ خارجہ کا قلم دان سنبھالیں تو ان کے لیے بہتر ہوگا اور حمزہ پنجاب میں محمد شہبازشریف کی روایت کو زندہ رکھیں۔آخر میں پیشگی مبارکباد سب سے پہلے 2018ء کا وزیراعظم محمد شہباز شریف قوم کو مبارک‘ اللہ تبارک وتعالیٰ ہر لمحہ قوم کو مبارک‘ مبارک اور مبارک کا لفظ اور خوشی مبارک کرے۔ (آمین)
؎عقل ہے تیری سُپر عشق ہے شمشیر تیری
مرے درویش! خلافت ہے جہانگیر تیری
ماسوا اللہ کے لیے آگ ہے تکبیر تیری
تو مسلماں ہو تو تقدیر ہے تدبیر تیری
کی محمدؐ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح وقلم تیرے ہیں
٭٭٭