پروفیسر احسان کلیم بٹ کی ادبیات میں کلیمی مسلم ہے۔شبانی نے موسٰی کو کلیمی عطا کی۔’’عصا نہ ہوتو کلیمی ہے کار بے بنیاد‘‘درست مگر شاعر کی کلیمی عصا نہیں قلم ہوتا ہے جس کی عظمت کی قسم خود پروردگار نے کھائی ہے۔کلیم احسان بٹ صاحب قلم ہیں۔صاحب دانش و بینش ہیں۔صاحب عرفان و وجدان ہیں۔صاحب سوزو گداز ہیں۔ اسلام کے فدائی،اقبال کے شیدائی ،وطن پر قربان اور درد انسان کا درمان ہیں۔قبل ازیں علمی و ادبی مقالات کا مجموعہ بعنوان’’مقالات کلیم‘‘کو زیور طباعت سے آراستہ و پیراستہ کرکے صاحبان علم و ادب سے داد و تحسین حاصل کرچکے ہیں۔ان کی ضرب کلیمی سے بارہ چشمے پھوٹنے کے علاوہ چودہ طبق بھی روشن ہوجاتے ہیں۔شب تیرہ و تار منور ہوجاتی ہے۔’’پس دیوار آئینہ‘‘ ان کی نظموں اور غزلوں کو مجموعہ ہے۔حمد ونعت و سلام سے آغاز کتاب برکتوں، سعادتوں اور رحمتوں کی خوشبوئے روحانیت سے دل و دماغ کو معطر کردیتی ہے۔ آئینہ حق گوئی کا مظہر ہے۔جیسی تصویر ویسا عکس۔ خوب وزشت کا مظہر ۔آئینہ دل کی توبات ہی کچھ اور ہے۔ یہ شکستہ بھی ہوتو تصویر دوست خوب سے خوب تر۔ بقول اقبال …؎
تو بچا بچا کے نہ رکھ اسے ترا آئینہ ہے وہ آئینہ
کہ شکستہ ہوتو عزیز تر ہے نگاہ آئینہ ساز میں
پروفیسر کلیم احسان بٹ کی غزلیات روایت و جدت کا حسین سنگم ہیں۔ اشعار میں گہرائی اور گیرائی ہے۔ غنائیت بھی ہے۔ سلاست و بلاغت بھی ہے۔ قصہ ہجر بھی ہے اور مسائل زندگی کی تعبیر و تفسیر بھی۔ میرتقی میر کا غم دل بھی عیاں ہے اور اقبال کا درد نہاں بھی۔کہتے ہیں …؎
کہتے ہیں چار دن کی ہے یہ زندگی کلیم
یعنی ترا فراق بہت مختصر نہیں
یہ چار روزہ حیات جو حیات مستعار ہے ایک داستان غم و اندوہ ہے۔بقول بہادر شاہ ظفر …؎
عمر دراز مانگ کے لائے تھے چار دن
دو آرزو میں کٹ گئے دو انتظار میں
پس دیوار آئینہ میں بعض اشعار بانگ درا بھی ہیں اور بال جبریل بھی۔الہامی و جاودانی اور وجدانی ہیں۔مثلاً …؎
کچھ پالتو پرندے چمن میں اتار کر
ہم کو فریب فصل بہاراں دیا گیا
صاحبان سیف و قلم بردوش علم ہیں۔ یہ وفا و مہر و صدق و صداقت کے نمائندے ہیں۔ صاحب کتاب ہونا عطیئہ پروردگار ہے۔احباب نے کتابیں بھیجیں۔ نظر نواز ہوئیں۔ روح کی نماز ہوئیں۔ باعث سوزو گداز ہوئیں۔ ہمدم و ہمراز ہوئیں۔ ڈاکٹر محمد وسیم انجم شعبہ اردو وفاقی اردو یونیورسٹی کے سربراہ ہیں۔ آپ ایک مستند ادیب، نقاد، استاد اور مصنف ہیں۔ اقبالیات پر گہری نگاہ ہے۔کئی ادبی کتابوں کے خالق ہیں۔ چند روز قبل میرے غریب خانہ پر تشریف لائے اور دوکتابیں مرحمت فرمائیں ۔’’مشتاق قمر کے ناول اور ڈرامہ کا خصوصی مطالعہ ‘‘کے عنوان سے جنید ظفر کی کتاب اور اپنی تازہ تنصیف’’تا بندہ لوگ‘‘ عطا کی۔ پروفیسر مشتاق قمر ایف جی سرسید کالج راولپنڈی میں انگریزی ادبیات پڑھاتے رہے۔ افسانہ، انشائیہ، ناول، ڈرامہ اور تنقید میں ان کی تحریریں قابل ستائش ہیں۔’’لہو اور مٹی‘‘اور ’’معبوب شہر‘‘ ان کے افسانوں کے مجموعے ہیں جبکہ ’’ہم ہیں مشتاق‘‘ ان کے انشائیہ کا مجموعہ اور ’’ایک دن کا آدمی‘‘ ان کا ناول ہے۔ ڈاکٹر محمد وسیم انجم نے پوٹھوہار کی روحانی، مذہبی، صحافتی، ادبی، علمی اور ثقافتی شخصیات کو اپنی تازہ تصنیف بعنوان ’’تابندہ لوگ‘‘ کی زینت بنایا ہے۔ وفاقی اردو یونیورسٹی کی سابقہ چیئر پرسن ممتاز کالم نگار اور دانشور محترمہ ڈاکٹر فہمیدہ تبسم اور ماہر اقبالیات ممتاز و معروف دانشور، شاعر اور کالم نگار ڈاکٹر زاہد حسن چغتائی کی آراء شامل کتاب ہیں۔ اس کتاب میں سمندر کو کوزے میں بند کیا گیا ہے۔ قطرے میں دجلہ کا نظارہ کرایا گیا ہے۔ ادیبوں، شاعروں اور ادبی دانشوروں میں ڈاکٹر جمیل الدین عالی، ڈاکٹر رحیم بخش شاہین، ڈاکٹر رشید نثار، ڈاکٹر عبدالغنی، بشیر حسین جعفری، اجمل بنڈیا لوی، قمر رعینی، فضل الرحمٰن عظیمی، ڈاکٹر بشیر سیلفی اور پروفیسر زہیر کنجاہی کا ذکر ہے جواب اس دنیائے فانی میں نہیں۔ زندہ ادبی شخصیات میں پروفیسر فتح محمد ملک ، ڈاکٹر عالیہ امام، ڈاکٹر عطش درانی، ڈاکٹر مقصود جعفری، ڈاکٹر حسن چغتائی،ڈاکٹر ستیہ پال انند، پروفیسر کلیم بٹ، ڈاکٹر اعجاز صدیقی، صدیق فنکار اور طاہر محمود پر مضامین کو شامل کتاب کیا گیا ہے۔’’تابندہ لوگ‘‘ تابندہ جبیں ہیں۔ ان کے افکار کی روشنی سے شب تیرہ میں چراغاں ہے۔ خطہ پوٹھوہار کی ان شخصیات پر خامہ فرسائی کرکے ڈاکٹر محمد وسیم انجم نے ’’ادیب پوٹھوہار‘‘کہلوانے کی سعادت حاصل کرلی ہے۔ مرحوم ادباء اور شعراء میں اکثر میرے گہرے دوست تھے۔ انکے بارے میں مضامین پڑھ کر یاد ماضی نے آنکھوں کو پرنم کردیا۔ ڈاکٹر مظہر قیوم روزنامہ نوائے وقت اسلام آباد کے کالم نگار اور ماہر امراض چشم ہیں۔113 سعدی روڈ صدر راولپنڈی میں مظہر آئی ہسپتال چلارہے ہیں۔ سیاسی و سماجی شخصیت ہیں۔ جدید مکتبہ دانیال لاہور نے حال ہی میں ان کی کتاب’’آنکھوں کی حفاظت‘‘ شائع کی ہے۔ ڈاکٹر مظہر قیوم ادب دوست ہیں اس نسبت سے میرے قریب ترین دوستوں میں سے ہیں۔ میرتقی میر نے کہا تھا …؎
میرؔ ان نیم باز آنکھوں میں
ساری مستی شراب کی سی ہے
محبوبہ طناز کی نرگسی آنکھوں کے ذکر اور چشمان آہو کی دلکشی پر شاعروں نے بہت لکھا اور خوب لکھا۔آنکھیں دل کی ترجمان ہوتی ہیں۔ جب لب خاموش ہوں تو آنکھیں بولتی ہیں۔بقول اقبالؔ …؎
فقط نگاہ سے ہوتا ہے فیصلہ دل کا
نہ ہو نگاہ میں شوخی تو دلبری کیا ہے
یہ باتیں تو شاعرانہ اور ساحرانہ ہوئیں مگر خوبان زمانہ کی حسین آنکھوں کو نظر بھی تو لگ جاتی ہے۔ اور یہ جرعہ شراب سے نہیں بلکہ بہ سبب مرض سرخ ہو جاتی ہیں۔ درد کرتی ہیں اور پھر ڈاکٹر مظہر قیوم چارۂ چشمان زخم خوردہ کا علاج کرتے ہیں۔21 مئی 2017ء کو ڈاکٹر صاحب نے فون کیا اور فرمایا ملاقات کیلئے آرہا ہوں۔ تشریف لائے تو تحفہ درویش کتاب مرحمت فرمائی۔کہنے لگے سادہ و سلیس زبان میں عوام کی خاطر آنکھوں کے امراض پر یہ کتاب لکھی ہے تاکہ لوگ اس سے استفادہ کریں اور احتیاطی تدابیر اختیار کرکے آنکھوں کی روشنی بحال رکھیں کیونکہ بصیرت ضررورت روح ہے تو بصارت ضرورت جسم ہے۔بصیرت و بصارت لازم و ملزوم ہیں۔ فرمایا ’’آپ شاعر و فلسفی ہیں۔ امراض ذہنی و قلب کا عقلی و روحانی و وجدانی علاج کرتے ہیں۔ میں سرجن ہوں آنکھوں کی بصارت کا ذمہ اٹھایا ہے۔ علاج جسمانی کرتا ہوں‘‘۔ مجھے کتاب پڑھ کر حیرت ہوئی کہ ڈاکٹر مظہر قیوم نے کمال ہنر مندی و دانش مندی سے عام فہم زبان میں امراض چشم کا جدید طریقوں سے علاج کی وضاحت کی اور لوگوں کو گھریلو ٹوٹکوں اور نیم حکیموں کے مشوروں پر عمل سے منع کیا۔کتاب میں آنکھ کی ساخت اور امراض چشم کے علاج پر تفصیلی روشنی ڈالی گئی ہے۔ آئرس،جھلی، قرینہ اور روشنی کی نس کے علاوہ متعدد بیماریوں کا ذکر کرکے مفید مشورے دیئے ہیں۔ دوران مطالعہ میرے حالق چشم اپنے خدا پر ایمان پختہ ہوا اور میں ورطہ حیرت میں مبتلا ہوگیا کہ انسان کا جسم کتنی سائنٹیفک سچائی ہے۔کیا بغیر تدبیر و تخلیق کے ایسی پیچیدہ ساخت بن سکا ہے۔اگر انسان تخلیق کائنات اور اپنی تخلیق پر غور کرے تو ’’فبای الاء ربکما تکذبن‘‘ زبان پر جاری ہوجاتا ہے اور ’’یا اولابصار‘‘کا اعلان دعوت فکر ہے۔