اسلام آباد (نوائے وقت نیوز/ صباح نیوز/ نیٹ نیوز) ایف آئی اے نے سپریم کورٹ سے اصغر خان عملدرآمد کیس کی فائل بند کرنے کی سفارش کردی۔ عدالت عظمیٰ میں جمع کروائی گئی رپورٹ میں ایف آئی اے نے موقف اختیار کیا کہ یہ معاملہ 25 سال پرانا ہے، کیس میں اتنے شواہد نہیں کہ کارروائی ہوسکے جبکہ کیس کی سماعت کل ہوگی۔ رپورٹ کے مطابق اہم گواہوں کے بیانات متضاد ہے جبکہ بنکوں سے ٹرانزیکشنز کا ریکارڈ بھی نہیں ملا۔ ایف آئی نے اپنے جواب میں کہا کہ کیس میں اتنے شواہد نہیں کہ کارروائی ہوسکے لہذا اسے بند کر دینا چاہئے۔ رپورٹ میں کہا ہے کہ جن سیاستدانوں پر الزام تھا انہوں نے بھی رقم کی وصولی سے انکار کیا ہے۔ گواہوں کے بیانات میں بھی تضاد ہے، گواہوں کے بیانات ایک دوسرے سے نہیں ملتے اور متعلقہ بنکس سے پیسہ اکاﺅنٹس میں جمع ہونے کا مکمل ریکارڈ نہیں۔ واضح رہے اصغر کیس میں بڑے بڑے سیاستدانوں پر 1990ءکے الیکشن میں پیسہ لیکر دھاندلی کرانے کا الزام تھا اور سپریم کورٹ نے 1990ءکے الیکشن کو دھاندلی زدہ قرار دیا تھا۔ سپریم کورٹ نے دھاندلی کیلئے رقوم تقسیم کرنے کے معاملہ کی ایف آئی اے کو انکوائری کا حکم دیا تھا۔ ایف آئی اے نے سپریم کورٹ میں اصغر خان کیس کی فائل بند کرنے کی رپورٹ جمع کراتے ہوئے کہا ہے کہ ادارے کے پاس اتنے شواہد نہیں کہ اس کیس پر فوجداری کارروائی ہوسکے۔ جن سیاستدانوں پر الزام تھا انہوں نے رقم کی وصولی کی تردید کی ہے۔ اہم گواہوں کے بیانات میں جھول ہیں اور بیانات ایک دوسرے سے نہیں ملتے۔ معاملہ 25 سال سے زیادہ پرانا ہے اور متعلقہ بنکوں سے پیسہ اکاﺅنٹس میں جمع ہونے کا مکمل ریکارڈ نہیں ملا۔ اصغر کیس میں بڑے بڑے سیاستدانوں پر 1990ءکی دہائی کے الیکشن میں پیسہ لیکر دھاندلی کرانے کا الزام تھا اور سپریم کورٹ نے ان انتخابات کو دھاندلی زدہ قرار دیتے ہوئے ایف آئی اے کو رقوم تقسیم کرنے کے معاملہ کی انکوائری کا حکم دیا تھا۔ واضح رہے سپریم کورٹ اس کیس کی کل سماعت کریگی۔ سپریم کورٹ میں اصغر خان کیس 1996ءمیں دائر ہوا مقدمے کی رو سے اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان کی ہدایت پر ایوان صدر میں 1990ءکے انتخابات کیلئے الیکشن سیل بنایا گیا جس میں اس وقت کے آرمی چیف جنرل مرزا اسلم بیگ اور ڈی جی آئی ایس آئی اے درانی شامل تھے مقدمے میں کہا گیا تھا کہ 1990 ءکے انتخابات میں بے نظیر بھٹو کو شکست دینے کیلئے آئی ایس آئی کے سیاسی ونگ نے مبینہ طور پر مہران بینک کے یونس حبیب کے ذریعے سیاستدانوں میں 14 کروڑ روپے تقسیم کئے جس سے عوام کو شفاف انتخابات اور حق رائے دہی سے محروم رکھ کر حلف کی روگردانی کی گئی۔ بعدازاں 16 سال بعد عدالت نے 2012ءمیں مذکورہ کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے ریٹائرڈ جرنیلوں اسلم بیگ اسد درانی اور مہران بینک کے سربراہ یونس حبیب کے خلاف کارروائی کا حکم دیا اور رقم وصول کرنے والے سیاستدانوں کے خلاف ایف آئی کو تحقیقات کا حکم دیا تھا اس ضمن میں تفصیلی فیصلہ سناتے ہوئے عدالت نے کہا تھا کہ اس وقت کے صدر آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی نے اپنے عہدوں کا ناجائز استعمال کیا 1990ءکے انتخابات میں دھاندلی کی گئی جبکہ اسلم بیگ اور اسددرانی غیر قانونی سرگرمیوں میں شریک ہوئے ان کا یہ عمل انفرادی فعل تھا اداروں کا نہیں تفصیلی فیصلے میں کہا گیا تھا کہ خفیہ اداروں کا کام الیکشن سیل بنانا نہیں بلکہ سرحدوں کی حفاظت کرنا ہے صدر مملکت ریاست کا سربراہ ہوتا ہے صدر حلف سے وفا نہ کرے تو آئین کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوتا ہے ایوان صدر میں کوئی سیل ہے تو فوری بند کیا جائے عدالت کی جانب سے کہا گیا تھا کہ ایس کیس میں کافی ثبوت جمع کئے گئے لہذا ایف آئی اے فنڈز وصول کرنے والوں کے خلاف ٹرائل کیلئے مقدمات کی تیاری کرے جس کے بعد سپریم کورٹ کے 2012ءکے فیصلے کی روشنی میں ایف آئی اے کی جانب سے ایک ٹیم تشکیل دی گئی تھی جس میں سابق ڈائریکٹر جنرل غالب بندیشہ ڈاکٹر عثمان انور، قدرت اللہ مروت اور نجف مرزا شامل تھے اس تحقیقاتی ٹیم کی جانب سے اصغر خان کیس کے فیصلے کے تقریباً ایک سال بعد 2013ء کے اختتام پر تحقیقات کا آغاز کیا گیا تھا اپنی تحقیقات کے دوران 2015ءتک ایف آئی اے کی جانب سے سابق وزیرعظم نواز شریف ائر مارشل (ر) اصغر خان آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل (ر) اسد درانی مہران بینک کے مالک یونس حبیب ایڈووکیٹ یوسف میمن اور معروف صحافی الطاف حسین قریشی کے بیان ریکارڈ کئے گئے تھے اس ضمن میں فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اصغر خان کیس میں عدالتی فیصلے پر علمدرآمد سے متعلق سابق آرمی چیف مرزا اسلم بیگ اور سابق ڈی جی آئی ایس آئی اسد درانی نے نظرثانی کی درخواستیں دائر کی تھیں جو رواں سال 6 مئی کو مسترد کردی گئیں۔ بعدازاں 9 جون کو اصغر خان عملدرآمد کیس میں سابق وزیراعظم نوازشریف نے سپریم کورٹ میں اپنا جواب جمع کرایا تھا جس میں انہوں نے 1990ءکی انتخابی مہم کیلئے 35 لاکھ روپے لینے کے الزام کو مسترد کردیا تھا۔ انہوں نے کہا ہے کہ 1990ءکی انتخابی مہم کیلئے اسد درانی یا ان کے کسی نمائندے سے کوئی رقم نہیں لی اور نہ ہی کبھی یونس حبیب سے 35 لاکھ یا 25 لاکھ روپے وصول کئے۔ نوازشریف نے کہا تھا کہ ان الزامات سے متعلق 14 اکتوبر 2015ءکو اپنا بیان ایف آئی اے کو ریکارڈ کروا چکا ہوں، اسکے علاوہ اصغر خان کیس میں جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے اپنی جماعت پر عائد الزامات کے حوالے سے اپنا بیان حلفی جمع کرادیا تھا۔ سراج الحق نے بھی 1990ءکے انتخابی مہم کیلئے آئی ایس آئی سے رقم لینے کے الزام کو مسترد کرتے ہوئے بیان حلفی میں کہا تھا کہ جماعت اسلامی 2007ءمیں رضا کارانہ طور پر عدالتی کارروائی کا حصہ بنی ہم نے آئی ایس آئی سے کوئی رقم وصول نہیں کی ہم کسی بھی فورم یا کمیشن میں جواب دینے کیلئے تیار ہیں۔
ایف آئی اے/ اصغر خان کیس