پاکستان اور سعودی عرب ایک پیج پر

Dec 30, 2019

مولانا محمد عباس غازی

پوری امت مسلمہ کے دل سعودی عرب کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔ اگر کسی معاملے پر سعودی عرب کو تشویش ہے تو پاکستان وہ پہلا ملک ہو گا جو اس تشویش کو پوری شدت کے ساتھ محسوس کرے گا۔ وزیراعظم عمران خان نے اپنے طرز عمل سے ثابت کر دیا کہ پاکستان اور سعودی عرب کے دل ایک ساتھ دھڑکتے ہیں۔ ملائیشیا کے وزیراعظم ڈاکٹر مہاتیر محمد کی طرف سے طلب کردہ ’’کوالالمپور سمٹ‘‘ تین دن تک پوری دنیا کی توجہ کا مرکز رہی۔ اس کانفرنس کو کامیاب بنانے کے لئے ڈاکٹر مہاتیر محمد وزیراعظم ملائیشیا نے اپنے طبعی رحجان کے مطابق بھرپور محنت کی۔ گذشتہ چار ماہ سے مہاتیر محمد کوالالمپور سمٹ کو کامیاب بنانے میں کوشاں تھے۔ ڈاکٹر مہاتر محمد اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس کے موقع پر بھی جنرل اسمبلی کی راہداریوں میں بھرپور طریقے سے دو ’’سائیڈ میٹنگز‘‘ میں مصروف رہے۔ کوالالمپور سمٹ کی تیاریوں اور انعقاد کے مراحل پورے زور شور سے چار ماہ تک جاری رہے۔ سعودی عرب کی طرف سے اس دوران سعودیہ کا سرکاری موقف رد عمل نہ تو پرنٹ میڈیا کے ذریعے دنیا کے سامنے آیا اور نہ ہی الیکٹرانک میڈیا میں کوالالمپور سمٹ کے بارے میں کوئی بات سامنے آ سکی۔
کوالالمپور سمٹ کے انعقاد سے گنتی کے چند روز قبل جب وزیراعظم پاکستان سعودی عرب کے ایک روزہ سرکاری دورے پر تشریف لے گئے تو سعودی عرب کے فرماں روا شاہ سلمان بن عبدالعزیز اور ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے ساتھ خصوصی ملاقاتیں ہوئیں۔ دورہ سعودی عرب کے بعد وزیراعظم عمران خان نے اپنا طے شدہ دورہ کوالالمپور کو ملتوی کر دیا۔ وزیراعظم عمران خان کے دورہ کوالالمپور کے التوا کے بعد کوالالمپور سمٹ‘‘ کے بارے میں سعودی عرب کے مؤقف ‘ نقطہ نظر اور پالیسی کے بارے میں پوری دنیا کی نگاہیں برق رفتاری کے ساتھ متوجہ ہوئیں۔ مختلف ممالک اور عالمی لیڈروں نے اپنے اپنے نقطۂ نظر سے عمران خان کے دورہ ملائیشیا کے التوا کی وجوہات پر روشنی ڈالی۔ ترکی کے محترم صدر رجب طیب اردگان کے خیالات اور نقطہ نظر جب سامنے آیا تو سعودی عرب کی طرف سے پاکستان میں سعودی ایمبیسی کی طرف سے ترکی کے صدر رجب طیب اردگان کے خیالات کا ترکی بہ ترکی جواب دیا گیا۔جس کی تفصیل قارئین کرام کی دلچسپی کے لیے من و عن درج کی جا رہی ہے:
ملائیشیاء سمٹ میں وزیراعظم عمران خان کی عدم شرکت کے حوالے سے ترکی کے صدر جب طیب اردگان کا پاکستان میں میڈیا پر چلنے والا بیان بے بنیاد ہے۔ سعودی سفارت خانہ نے کہا کہ خبر میں کہا گیا کہ سعودی عرب نے پاکستان کو کوالالمپور سمٹ میں شرکت نہ کرنے پر مجبور کیا ہے۔ اور پاکستان کو دھمکی دی ہے۔ سعودی عرب اور پاکستان کے تعلقات ایسے نہیں جہاں دھمکیوں کی زبان استعمال ہوتی ہو اس لیے کہ یہ خالصتاً تزویراتی تعلقات ہیں۔ جو اعتماد افہام و تفہیم اور باہمی احترام پر قائم ہیں۔
سعودی سفارتخانہ نے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان بیشتر علاقائی، عالمی اور بطور خاص امت مسلمہ کے معاملات میں اتفاق رائے پایا جاتا ہے۔ سعودی عرب ہمیشہ دوستانہ تعلقات کی بنیاد پر پاکستان کے ساتھ کھڑا رہا ہے۔ ہمیشہ پاکستان کا ساتھ دیا ہے۔ تا کہ پاکستان ایک کامیاب اور مستحکم ملک کے طور پر اپنا کردار ادا کر سکے۔ گذشتہ روز ترک صدر رجب طیب اردگان نے کہا کہ ملائیشیا میں ہونے والی مسلم ممالک کی کوالالمپور سمٹ میں پاکستان کی عدم شرکت کی وجہ سعودی عرب کا دباؤ تھا۔سعودی عرب نے ترک صدر رجب طیب اردگان کے بیان کو مکمل طور پر بے بنیاد قرار دیا ہے جس میں ترک صدر نے کہا تھا سعودی عرب کی طرف سے دھمکیوں کے بعد وزیراعظم عمران خان نے ملائیشیا سمٹ میں عدم شرکت کا فیصلہ کیا ہے۔
قارئین محترم! کوالالمپور سمٹ‘‘ کے انعقاد کے بعد وزیراعظم ملائیشیا کی طرف سے بھی ایک بیان سامنے آیا ہے جس میں وہ فرما رہے ہیں کہ ’’سعودی عرب کا دورہ کر کے سعودی عرب کو مطمئن کروں گا‘‘
کیا ہی اچھا ہوتا ڈاکٹر مہاتیر محمد کوالالمپور سمٹ کے انعقاد سے پہلے سعودی عرب سے مشورہ فرماتے ہوئے اسے اعتماد میں لیتے تو یہ صورتحال پیدا نہ ہوتی۔ سعودی عرب کو اعتماد میں نہ لینے اور مشورہ نہ کرنے کا واضح نقصان سامنے آیا ہے۔ سعودی عرب اور پاکستان نے کوالالمپور سمٹ میں شرکت نہیں کی۔او آئی سی کا پلیٹ فارم مسلم امہ کے اتحاد اور یکجتہی کی علامت ہے۔ اس پلیٹ فارم کے ہوتے ہوئے کسی بھی نئے پلیٹ فارم یا تنظیم کو سعودی عرب اور پاکستان مسلم امہ کے لیے تقسیم اور افتراق کا پیش خیمہ سمجھتے ہیں‘‘پاکستان اور سعودی عرب مسلم امہ کے اتحاد اور یکجتہی کو اپنی اولین ترجیحات تصور کرتے ہیں۔’’وزیراعظم عمران خان نے سعودی عرب کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کو انتہائی مضبوط اور پائیدار بنانے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ کوالالمپور سمٹ میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ پاکستان کا اپنا فیصلہ ہے۔ دنیا کو اس فیصلے میں سعودی عرب کے دباؤ یا دھمکیوں کا جواز تلاش نہیں کرنا چاہیے۔‘‘سعودی عرب اور پاکستان گذشتہ طویل عرصہ سے دشمن قوتوں کی طرف سے بچھائے گئے سازشوں کے جال اور ان کی توپوں کے چلائے گئے گولوں اور میزائلوں کی زد میں ہیں۔ ایسے حالات میں سعودی عرب اور پاکستان باہم قدم سے قدم ملا کر چل رہے ہیں۔ گذشتہ دور حکومت میں سعودی عرب کے پاکستان پر اعتماد اور دوستی کو شدید دھچکے لگے۔ اور دشمن قوتیں خوش ہوئیں۔ وزیراعظم عمران خان نے ازسرنو پاکستان پر سعودی عرب کے اعتماد کو بحال کیا ہے اور مضبوط بنایا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ دشمن قوتیں سعودی عرب اور پاکستان کو تنہا کرنا چاہتی ہیں۔ او آئی سی کا وجود مسلم امہ کے ساتھ ساتھ عربوں کے ایک مضبوط اتحاد کی بھی علامت ہے۔سعودی عرب او آئی سی کو مضبوط اور فعال دیکھنا چاہتا ہے۔ بعض ملکوں کی طرف سے سعودی عرب اور پاکستان کے خلاف ہونے والی سازشوں اور ریشہ دوانیوں کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ سعودی عرب کے خلاف اقدامات امت مسلمہ کے مرکز اور وحدت کے خلاف سازش ہے۔ ڈاکٹر مہاتیر محمد بھی اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں۔ ڈاکٹر مہاتیر محمد بھی ہرگز ہرگز سعودی عرب کو کمزور یا تنہا کرنا نہیں چاہیں گے۔ ایسے حالات میں جب کوالالمپور سمٹ‘‘ کے انعقاد پر سعودی عرب کے خدشات اور تحفظات موجود تھے، ڈاکٹر مہاتیر محمد کو ان خدشات اور تحفظات کو دور کیے بغیر اور سعودی عرب کو رضا مند کیے بغیر کو اعتماد میں لیے بغیر اتنا بڑا فیصلہ نہیں کرنا چاہیے تھا۔ یہ درست ہے کہ قوموں اور ملکوں کے اقدامات اور فیصلے اپنے ہوتے ہیں، حکومتیں بھی اپنے من پسند فیصلے کرنے میں آزاد ہوتی ہیں،لیکن مسلم امہ کے ہمدرد، بہی خواہ اور اتحاد کے داعی کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ وہ اتحاد اور اجتماعیت کو مضبوط بنانے کے لیے دشمنوں کی سازشوں اور ریشہ دوانیوں پر بھی نظر رکھے۔ اور تمام حالات پر نظر رکھتے ہوئے آگے بڑھے۔اب ڈاکٹر مہاتر محمد وزیراعظم ملائیشیا کا یہ قومی اور ملی فریضہ ہے کہ وہ سعودی عرب کے خدشات و تحفظات کو دور کرنے کے لیے جلدازجلد سعودی عرب اور پاکستان کا ہنگامی دورہ کر کے دونوں ملکوں کو اعتماد میں لیں اور خدشات و تحفظات کا ازالہ فرمائیں۔
یقیناً ڈاکٹر مہاتر محمد وزیراعظم ملائیشیا میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ تمام اُمور پر نظر رکھتے ہوئے مسلم امہ کے اتحاد او۔آئی۔سی کو مزید مضبوط اور فعال بنانے کے لیے سعودی عرب اور پاکستان کے شانہ بشانہ چلیں گئے۔!

مزیدخبریں