نیب آرڈیننس پارلیمنٹ جائیگا، کسے فائدہ ہوگا فیصلہ عدالتیں کرینگی: معاون خصوصی احتساب

اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی)وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب و داخلہ امور بیرسٹر شہزاد اکبر نے کہا ہے نیب آرڈیننس پارلیمنٹ کے سامنے جائے گا، آرڈیننس کی ایک مدت ہوتی ہے، اس قانون کا فائدہ کس کو ہوگا کس کو نہیں اس کا فیصلہ عدالتیں کریں گی۔ نیب کے ترمیمی آرڈیننس کی سراسر غلط تشریح کی جارہی ہے۔ انہوں نے یہ بات وفاقی وزیر برائے مواصلات مراد سعید کے ہمراہ پی آئی ڈی میں ایک ہنگامی پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہی ۔ بیرسٹر شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ میں اپنی چھٹیوں پر تھا لیکن ایک کنفیوژن کو دور کرنے آیا ہوں، کنفیوژن کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ گزشتہ 10 سال سے نیب کے قوانین تبدیل کرنے کی خواہشیں تھیں لیکن ان خواہشوں میں بدنیتی شامل تھی۔ انہوں نے کہا کہ نیب کے ترمیمی آرڈیننس کی ایک مدت ہے، ترمیمی آرڈینینس نے پارلیمنٹ کے سامنے بھی جانا ہے، ترمیمی آرڈیننس سے فیصلہ سازی میں اعتماد آئے گا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں احتساب کا قانون سخت ہے، وقت کے ساتھ ساتھ اس قانون میں کلیری فیکیشن کی ضرورت ہوتی ہے، احتساب کا عمل ختم ہونے کا تاثر غلط ہے، اس میں وضاحت کی گئی ہے کہ ٹیکسیشن کے معاملات ایف بی آر دیکھے گا لہٰذا نیب ترمیم کو دیکھے بغیر تنقید کی جارہی ہے۔ شہزاد اکبر نے کہا کہ آرڈیننس کا سیکشن 4 بتائے گا کہ قانون کہاں اپلائی ہوگا، کوئی بھی شخص جس کا پبلک آفس ہولڈر سے کوئی رابطہ نہیں، اس کے معاملے میں نیب کا قانون لاگو نہیں ہوگا، پرائیویٹ آدمی پر ذرائع سے زائد اثاثوں کا کیس نہیں بن سکتا، بریچ آف ٹرسٹ پر نیب کا قانون لاگو ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ کہا جارہا ہے کہ بیوروکریسی کو رعایت دی گئی ہے، اس میں سیاستدان اور بیوروکریسی دونوں شامل ہیں، بیوروکریسی کو فیصلہ سازی میں اعتماد دینے کے لیے یہ دفاع دیا گیا، ضمانت اور ریمانڈ کا قانون تبدیل نہیں ہوا، آج تک جتنی تجاویز لائی گئیں وہ ایمانداری پر مبنی نہیں تھیں لہٰذا ابو بچاؤ مہم پر کوئی تعاون نہیں ہوگا۔ بیرسٹر شہزاد اکبر نے کہا ہے کہ نیب ترمیمی آرڈیننس کے حوالے سے پراپیگنڈا بے بنیاد جبکہ احتساب کا عمل ختم ہونے کا تاثر بھی غلط ہے، موجودہ حکومت میں کسی کو ذاتی فائدہ نہیں مل سکتا، غلط تاثر دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج کی پریس کانفرنس نیب آرڈیننس 2019 کے بارے میں ہے، گزشتہ چند روز سے تاثر دیا جا رہا ہے کہ احتساب کا عمل ختم ہوگیا ہے وفاقی اور صوبائی ٹیکسیشن، لیویز ڈیوٹیز نیب قوانین کے تحت ڈیل نہیں ہوں گے، نیب قانون کا اطلاق ٹرانزیکشنز پر نہیں ہو گا۔ یہ ایف بی آر کے دائرہ کار میں آئے گا ماسوائے اس میں بدعنوانی شامل نہ ہو۔ اسی طرح کوئی بھی شخص جس کا سرکاری عہدہ سے بالواسطہ یا بلا واسطہ تعلق نہیں ہے اور وہ اختیارات کے ناجائز استعمال کے زمرے میں نہیں آتا تو اس کے معاملہ میں نیب کے قانون کا اطلاق نہیں ہوگا۔ شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ معاشرے میں کرپشن کا ناسور پھیلا ہے اس کو روکنے کے لیے سخت قوانین کی ضرورت ہے، جس نے بدعنوانی کی اور کمیشن لئے اسے سخت سزا ملنی چاہیے، ایسا نہیں کہ یہ قانون پاس ہونے کے بعد کسی کو ٹیکس چوری کی چھوٹ دی جارہی ہے، وہ معاملہ متعلقہ ادارہ دیکھے گا تاہم نیب کی موجودہ ترمیم پارلیمنٹ کے پاس ہی جانی ہے، اگر کوئی تبدیلی لانا چاہتا ہے تو تجاویز لائے جائز تجاویز کا خیر مقدم کریں گے۔ نیب کا کام کرپشن کو پکڑنا ہے اداروں کو ٹھیک کرنا نہیں اس کے لئے متعلقہ ادارے اور قوانین موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جب ہم نے حکومت سنبھالی تو معاشی حالات بہت خراب تھے لیکن اب معیشت کو درست سمت میں گامزن کر دیا گیا ہے، آج معیشت مضبوط ہو رہی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ 10 سال میں نیب کیساتھ زیادتی کی گئی، پی ٹی آئی حکومت نے نیب ملازمین کو ان کا حق دیتے ہوئے ان کی تنخواہوں میں اضافہ کیا۔ ہم اداروں کی ساکھ بحال کر رہے ہیں تاکہ وہ بہتر انداز میں کام کر سکیں۔ انہوں نے کہا کہ لیگی ترجمانوں کی نیب آرڈیننس پر سیاست افسوسناک ہے، ان کا کہنا تھا کہ کرپشن کے خاتمے کیلئے سخت قوانین کی ضرورت ہے۔ کرپشن کرنے والے کو سخت سے سخت سزا ملنی چاہیے۔ نیب ڈرافٹ کو دیکھے بغیر تنقید کی جا رہی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ٹیکس کے معاملات پر فیصلہ لیا گیا ہے کہ یہ معاملات ایف بی آر دیکھے گا ماسوائے اس میں بد عنوانی نہ ہو، ترمیمی آرڈیننس کا سیکشن 4 بتائے گا کہ قانون کا اطلاق کہاں ہوگا۔ 12 میں سے ایک شق اختیارات کے غلط استعمال سے متعلق ہے۔ لیوی، امپورٹ اور ٹیکس کے معاملات نیب نہیں دیکھے گا اور مخصوص ٹرانزیکشنز پر نیب کے قانون کا اطلاق نہیں ہوگا جبکہ ملزم پبلک آفس ہولڈر نہ ہو تو نیب کیس کو نہیں دیکھے گا اس سے متعلق ادارے اسے دیکھیں گے۔ شہزاد اکبر نے کہا کہ ایف بی آر, نیب اور ایف آئی اے کی اپنی حدود ہیں جن کا وضاحت کی گئی ہے۔ جہاں پروفاقی ٹیکس یا لیویز یا اور کوئی قانون ہو گا تو وہ ٹیکسیشن کے زمرے میں آئے گا، نیب کے دائرہ کار میں نہیںہوگا اور اگر کسی شخص نے ٹیکس ادا نہیں کیا یاٹیکس چوری کی تو اس کا کیس ایف بی آر دیکھے گا۔ شہزاد اکبر نے کہا کہ اس آرڈیننس کے تحت اگر کوئی عام شخص جس کا کسی اختیار کو استعمال کرنے میں رابطہ نہیں ہے تو وہ نیب کے قانون تحت نہیں آئے گا۔ انہوں نے کہا کہ اگر کوئی شخص ذاتی حیثیت میں جعلی ہاوسنگ سوسائٹی یا مضاربہ کی طرز پرکمپنی بناتا ہے اور عوام سے دھوکہ دہی کرتا ہے تو اس کا کیس نیب ’’عوام الناس سے بڑے پیمانے پردھوکہ دہی‘‘ کے تحت دیکھے گا۔ معاون خصوصی برائے احتساب نے کہا کہ نیب کی دست اندازی یا مداخلت کے لیے ضروری ہے کہ اس نے کوئی غیر ضروری فائدہ اٹھایا ہو اوراگر طریقہ کار میں مسئلہ ہے تو یہ نیب کا معاملہ نہیں ہو گا، اس کے لیے آڈٹ, آڈٹ رپورٹس سمیت محکمانہ تحقیقات کاایک پورا طریقہ کار پہلے سے ہی موجود ہے۔ انہوں نے کہا کہ ضمانت، ریمانڈ اور دیگر چیزوں میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی، گڈ فیتھ پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا تاہم ابو بچائو مہم کے اوپر کوئی تعاون نہیں ہو سکتا۔ پی ٹی آئی کا احتساب کا ایک نعرہ ہے جس پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔ پریس کانفرنس کے دوران وفاقی وزیر مراد سعید نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ شہباز شریف کے کیس میں اس نے وزیر اعلی آفس میں فرنٹ مین بھی رکھا اس دفتر کا استعمال کیا اور جعلی ٹی ٹیز اور بے نامی کمپنیاں بنا کر ان کے ذریعے فائدہ حاصل کیا اس آرڈیننس کا اطلاق اس پر نہیں ہوتا۔ انہوں نے کہا کہ ملک کے اندر احتساب کا شعور صرف عمران خان نے دیا ہے۔موجودہ حکومت میں ملک کی لوٹی ہوئی دولت واپس لانے کے لئے کوششیں کی گئیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم 2023 تک یاد دلاتے رہیں گے کہ کیسا پاکستان آپ چھوڑ کر گئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم عمران خان کی قیادت میں ان کی معاشی ٹیم نے ملکی معیشت کو آئی سی یو سے نکالا اور استحکام کی جانب گامزن کیا، اب موڈیز کی رپورٹ, سیاحت کی رپورٹ اقتصادی اشاریے، کاروباری آسانیاں پیدا کرنے کے حوالے سے سب رپورٹس پاکستان کے حق میں آ رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 2020 ان ثمرات کی عوام تک منتقلی کا سال ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم بیس جنوری سے 192 ارب روپے کا ایک احساس پروگرام شروع کر نے جا رہے ہیں۔ انہوںنے کہا کہ پناہ گاہوں کے حوالے سے صرف اسلام آباد کے حوالے سے رپورٹ کے مطابق سڑکوں پر سونے والے 4 لاکھ اسی ہزار افراد اس سال ریاست کے مہمان بنے ۔ انہوں نے کہا کہ لوٹا ہوا پیسہ واپس لانے کے لیے ریکوری یونٹ بنایا گیا ہے اورصرف این ایچ اے میں 11.9 ارب روپے کی رقوم واپس وصول کی گئی ہیں۔ مراد سعید نے کہا کہ پرچی والے دوسرے جونئیر زرداری کو بیرون ملک تعلیم کے دوران تعلیم پر توجہ کا نہیں بلکہ لوٹے اثاثوں کو کیسے چھپانا ہے بتایا جاتا تھا اور سی آئی اے اس کی کال سن رہی ہوتی تھی۔ جونئیر زرداری مولانا کے کنٹینر پر چڑھ جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 24 ہزار ارب کے غیر ملکی قرضوں کے حوالے سے کمیشن کی رپورٹ بھی جلد قوم کے سامنے لائی جائے گی۔شہزاد اکبر نے کہا پتہ نہیں کب شہباز شریف واپس آئینگے اور مجھے عدالتوں میں لے کر جائیں گے۔

ملتان (سپیشل رپورٹر، نوائے وقت رپورٹ) وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ نیب آرڈیننس لانے کا مقصد کرپشن پر پردہ ڈالنا یا این آر او دینا نہیں، نیت پر شک نہ کیا جائے، نیب قوانین پر نظرثانی مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کا دیرینہ مطالبہ تھا۔ انہوں نے کہا بدقسمتی سے ہماری روش بن چکی ہے کہ ہم بغیر سوچے سمجھے کسی چیز پر تنقید کرتے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے گزشتہ روز ممبر صوبائی امن کمیٹی و اتحاد بین المسلمین کے صدر ملک شفقت حسنین بھٹہ کی والدہ کی قل خوانی کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ اپوزیشن پہلے نیب آرڈیننس کو پڑھ لے اس کے بعد بات کرے۔ اپوزیشن کہتی تھی ملک کا پہیہ نہیں چل رہا۔ کہا جا رہا تھا کہ کاروباری افرادکو ہراساںکیاجاتا ہے۔ پرائیویٹ سیکٹر کا چیک اینڈ بیلنس موجود ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کے مطالبے پر نظر ثانی کر کے حکومت نے نیب آرڈیننس پیش کیا۔ حکومت نے ایک تجویز دی ہے کہ لوگوں کے دلوں سے نیب کا خوف نکالا جائے۔ وہ سرکاری افسران جن کو کرپشن نہیں صرف طریقہ کار کی وجہ سے دھر لیا گیا ان کا خوف دور کرنے کے لیے یہ کیا گیا۔اگر کسی کو اس پر اعتراض ہے تو بات کی جا سکتی ہے۔وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے مزید کہا کہ اداروں کے درمیان تصادم کے کوئی خدشات نظر نہیں آتے ۔پاکستانی آئین میں اداروں کاکردار واضح ہے ۔ہمارے اداروں میں سمجھ دار لوگ بیٹھے ہیں۔ ججز مکمل ذمہ داری سے کام کررہے ہیں۔پاکستانی افواج کی دہشت گردی کیخلاف قربانیاں دنیا کے سامنے ہیں۔اگر عدلیہ ‘ مقننہ اور انتظامیہ تینوں اہم ستون اپنی حدود میں رہیں گے تو مسئلے نہیں بنیں گے۔انہوں نے کہا مسئلہ کشمیر پر دنیا خاموش نہیں ہے،بھارت کی جانب سے کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی اور مسئلہ کشمیر کے حل ہونے تک بھارت کے ساتھ بیٹھنے کو تیار نہیں۔انہوں نے کہا کشمیر کا مسئلہ ایک وادی کا نہیں بلکہ عالمی مسئلہ بن چکا ہے۔مسئلہ کشمیر پر دنیا کا کوئی دارالخلافہ خاموش نہیںاور نہ ہی کوئی جریدہ ایسا ہے جہاں کشمیر پر بات نہ ہوئی ہو۔کشمیر میں میڈیا پر پابندی کے باعث بھارت کا اصلی چہرہ سامنے نہیں آ سکا۔کشمیر کا کوئی لیڈر ایسا نہیں جو بھارت کی تائید کر رہا ہو۔بھارت نے 5 اگست کو کشمیریوں کی آواز دبانے کی کوشس کی متنازعہ شہریت بل کی وجہ سے پورے بھارت میں افراتفری کاماحول ہے دنیااس کودیکھ رہاہے ،کیا مودی سرکار پورے بھارت میںکرفیولگاسکے گی۔ بھارت نے 5 جگہوں پر ایل اوسی باڑ کو کاٹا ہے،مختلف جگہوں پر بھارت کی جانب سے میزائل نصب کیے گئے ہیں۔ انہوں نے کہاہمیں بھارت سے فالس فلیگ آپریشن کا خدشہ ہے۔ بھارت اندرنی دباو سے نکلنے کے لئے کشمیر میں فالس فلیگ آپریشن کر سکتا ہے۔بھارت کشمیر میں فالس فلیگ آپریشن کا الزام پاکستان پر لگا سکتا ہے۔بھارت اپنے حالات سے توجہ ہٹانے کے لیے مقبوضہ کشمیر میں کوئی اپریشن کر سکتا ہے۔وزیرخارجہ نے مزیدکہاکہ12 دسمبر کو ساتواں خط سلامتی کونسل کو لکھا ہے۔ چین نے میرے خط کو بنیاد بناتے ہوئے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں اقوام متحدہ کے آبزرور سلامتی کونسل کو بریفنگ دیں۔کشمیر کے مسئلہ پر جو کیا جاسکتا ہے حکومت کررہی ہے۔اس وقت بھارت دو سوچوں میں تقسیم دکھائی دے رہا ہے۔ بھارت میں ایک سیکولر سوچ ہے۔ اور ایک ہندوتوا سوچ ہے۔ بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر سے جذبات مجروح ہوئے ہیں۔ اس مسئلہ پر حکومت پاکستان نے آواز اٹھائی ہے۔انہوںنے کہاکہ اوآئی سی میں وزرا ء خارجہ کی سطح کا اجلاس ہونا چاہیے۔ہماری خواہش ہے جلد ازجلد اوآئی سی کا اجلاس ہونا چاہیے۔ ہماری خواہش ہے کہ یہ اجلاس پاکستان اسلام آباد میں ہو ۔بھارت کے عزائم دنیا کے سامنے بے نقاب ہوں گے۔بھارت کی مارکیٹ اور وسائل ہم سے زیادہ ہے جس کو بروکار لاتے ہوئے بھارت امریکہ سمیت پوری دنیا میں لابی کرتا ہے۔وزیر خارجہ نے کہاڈاکٹر مہاتیر کی نیت پر ہم نہ شک کرتے ہیں نہ کرتے تھے ۔ ہم نے سوچا تھا کہ مل کر مختلف منصوبوں پر کام کر سکتے ہیں یہ بڑی مثبت سوچ تھی۔کچھ دوستوں کو خدشہ تھا کہ کہیں اس سے امت تقسیم نہ ہو جائے ۔ہم مسلمہ امہ کے درمیان جو غلط فہمیاں تھیں انہیں دور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ فروری میں ترکی کے صدر پاکستان تشریف لا رہے ہیں۔وزیر اعظم پاکستان ملائشیا جانے کا بھی ارادہ رکھتے ہیں۔ہماری کوشش رہی ہے کہ مسلم ممالک کے درمیان غلط فہمیاں دور کی جائیں۔انہوں نے کہا سری لنکن کرکٹ ٹیم کے دورہ پاکستان پر شکر گزار ہیں۔ انہیں بھرپور سیکیورٹی دی گئی۔ بنگلہ دیش آنے کو تیار تھا شاید بھارتی دباؤ کی وجہ سے انہوں سے انکار کیا۔ بنگلہ دیش کو اپنا موقف رکھنا چاہیے دباؤ میں نہیں آنا چاہیے۔ ہم نے بنگلہ دیش ٹیم کو بھی فل سیکیورٹی دینا تھی۔انہوں نے کہا سردیوں میں گیس کا بحران آتا ہے۔ گیس کا بحران سندھ اور پنجاب کا مسئلہ نہیں، ہم اس مسئلہ پر قابو پانے کی بھر پور کوشش کررہے ہیں۔سندھ حکومت کو گیس مسئلہ پر سیاست کرنے کی بجائے مل بیٹھ کر مسئلہ کا حل نکالنا چاہیے۔ایک سوال کے جواب میں وزیر خارجہ نے کہا افغانستان کے انتخابات خوش آئندہے ۔افغانستان میں جو حکومت آئی اسے خوش آمدید کہیں گے۔افغانستان میں امن ہماری خواہش ہے۔ افغانستان میں امن ہوگا تو خطے میںبھی امن ہوگا۔ انہوں نے کہا جنوبی پنجاب میں سیکرٹریٹ کا قیام ہماری اولین ترجیح ہے۔ گزشتہ ہفتے وزیراعلیٰ پنجاب سے اس مسئلے پر بات چیت ہوئی اوروزیراعلیٰ پنجاب سے درخواست کی کہ جنوبی پنجاب صوبے بارے کوششیں تیزکی جائیں۔امید ہے جلد اس مسئلے پر پیش رفت ہوگی۔ اس موقع پر صوبائی وزیر توانائی ڈاکٹر ا ختر ملک ‘صوبائی پارلیمانی سیکرٹری اطلاعات ندیم قریشی‘ شفقت حسنین بھٹہ ‘ رانا عبدالجبار ‘ سید طالب پرواز‘خواجہ سلیمان صدیقی بھی موجودتھے۔نوائے وقت رپورٹ کے مطابق شاہ محمود قریشی کا قومی احتساب بیورو (نیب) ترمیمی آرڈیننس پر اپوزیشن کی تنقید پر کہنا ہے کہ ہم کسی کو این آر او نہیں دینے جا رہے، نظر ثانی کر کے نیا طریقہ پیش کیا تو بھی تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اپوزیشن کے دوست بغیر پڑھے اور مقاصد سمجھے تنقید ضروری سمجھتے ہیں، نظر ثانی کر کے نیا طریقہ پیش کیا تو بھی تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔انہوں نے بتایا کہ اس وقت ملک میں سب سے بڑا مسئلہ معیشت کا ہے، حکومت معاشی بحران کے لیے اقدامات اٹھاتی ہے، تعاون کی درخواست کرتی ہے مگر اپوزیشن رکاوٹ ڈالتی ہے۔شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا تحریک انصاف کا مؤقف واضح ہے، ہم کسی کرپٹ کے ساتھ نہیں اور ہم کسی کو این آر او بھی نہیں دینے جا رہے، حکومت نے پروپوزل دیا ہے جہاں پبلک منی میں کرپشن نہیں ان سے ڈیل کی جائے، اس میں وہ افراد شامل ہوں گے جو کرپشن نہیں ادارہ جاتی پروسیجر کی وجہ سے دھر لئے گئے۔ ان کا کہنا ہے کہ آئین میں اداروں کا کردار بہت واضح ہے، ایگزیکٹو کو چاہیے کہ عدلیہ کی آزادی کو تسلیم کرے اور عدلیہ بھی ایگزیکٹو کو تسلیم کرے۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...