آئی ایم ایف کا تجویز کردہ نیا قانون

سیاسی عمل کا علمی اندازمیں بغور مشاہدہ کرتے ہوئے ماہرین کی ایک بہت بڑی تعداد نے Elite Capture کی اصطلاح متعارف کروائی ہے۔ میں اس کا اُردو متبادل تلاش نہیں کرپایا۔ سادہ الفاظ میں یوں کہہ سکتے ہیں کہ ان ماہرین کا اصرار ہے کہ جمہوری نظام خلقِ خدا کا نمائندہ نہیں رہا۔ اشرافیہ کے طاقت ور گروہوں نے اس نظام کو دکھاوے کی حد تک برقرار رکھنے کے مگر سو طریقے ایجاد کرلئے ہیں جن کی وجہ سے امریکہ اور یورپ کے برطانیہ اور فرانس جیسے ممالک کی خلقِ خدا بھی بدستور اس گماں میں مبتلا رہتی ہے کہ وہاں کی حکومتیں ان کے ووٹ سے منتخب ہوئی ہیں۔ ریاستی فیصلہ سازی عوام کے وسیع تر مفادات کے تابع ہے۔’’جمہوری نظام‘‘ اشرافیہ کے کسی ایک گروہ کو ریاست کے تمام اداروں پر بالادست نہیں ہونے دیتا۔’’چیک اینڈ بیلنس‘‘ پر مبنی سسٹم میں اشرافیہ کے ہر گروہ کو حصہ بقدر جثہ ہی ملتا ہے۔ اجارہ داری کی گنجاش موجود نہیں رہی۔
آج سے تین برس قبل ہوئے امریکی صدارتی انتخابات مگر مسلسل یہ حقیقت عیاں کررہے ہیں کہ فیس بک اور ٹویٹر وغیرہ کے ذریعے طاقت ور اور اشرافیہ نے لوگوں کے اذہان کو Fake Newsکے سیلاب کے ذریعے Manipulateکرنے کی بے پناہ قوت حاصل کرلی ہے۔ووٹ کا استعمال کرتے ہوئے عوام کی اکثریت اب عقل(Reason)کے بجائے اپنے دلوں میں موجود اور مستقل بھڑکائے ہوئے جذبات(Passion)کی غلام ہوچکی ہے۔برطانیہ کا Brexitکے حوالے سے ہوا ریفرنڈم اور بعدازاں بورس جانسن کا بھاری اکثریت کے ساتھ اس ملک کا وزیر اعظم منتخب ہونا انتخابی نظام کے Elite Captureکو عیاں کرنے کے لئے Modelکے طورپر پیش کئے جارہے ہیں۔
علمی گفتگو میرے بس کی بات نہیں۔آج کے قارئین کے پاس دقیق موضوعات پر غور کرنے کا موقعہ بھی نہیں ہوتا۔بھاری بھر کم الفاظ کو فراموش کرتے ہوئے لہذا وطنِ عزیز کی ’’آئی صورت‘‘ تک محدود ہوجاتے ہیں۔ہماری کاروباری اشرافیہ عمران حکومت سے مسلسل یہ گلہ کررہی تھی کہ احتساب کے نظام نے ان کے ہاتھ باندھ دئیے ہیں۔وہ نیب کے خوف سے اپنے کاروبار کو فروغ دینے سے خوف کھاتے ہیں۔ نئے منصوبوں پر سرمایہ کاری سے گھبراتے ہیں۔ عمران خان صاحب تک اپنی شکایات پہنچانے کاروباری افراد کے کئی وفود نے وزیر اعظم سے مستقل ملاقاتیں کی۔ بعدازاں وہ اپنی فریاد لے کر جی ایچ کیو بھی چلے گئے۔ بالآخر ہفتے کے روز عمران خان صاحب نے کراچی میں صنعت کاروں اور کاروباری افراد سے گفتگو کرتے ہوئے اپنے ’’دوستوں‘‘ کو یہ نوید سنائی کہ نیب قوانین میں ایک صدارتی آرڈیننس کے ذریعے مختلف ترامیم متعارف کروادی گئی ہیں۔ان کے صنعت کار ’’دوستوں‘‘ کو اب نیب کے بلاوے سے آزاد کردیاگیا ہے۔ امید اب یہ باندھی جارہی ہے کہ نیب کے خوف سے آزاد ہوکر پاکستان کے صنعت کار اور سرمایہ کار اپنے کاروبار بڑھانے کے لئے نئی سرمایہ کاری شروع کردیں گے۔ 2020کا سال کسادبازاری کے بجائے Growth کا سال قرار پائے گا۔ بازاروں میں رونق لوٹ آئے گی۔ لوگوں کو نوکریاں ملیں گی۔ وطنِ عزیز خوش حالی کی جانب تیزی سے بڑھتا نظر آئے گا۔
قانون سازی جمہوری نظام میں پارلیمان کا بنیادی حق اور فریضہ تصور ہوتے ہیں۔ہماری پارلیمان مگر دکھاوے کی حد تک بھی یہ ’’تہمت‘‘ اپنے سرلینے کو تیار نہیں ہو رہی۔ عمران خان صاحب کی ’’انقلابی‘‘ حکومت صدارتی احکامات کے تحت متعارف کروائے آرڈیننسوں کے ذریعے ’’نئے قوانین‘‘ لاگو کردیتی ہے۔ ان قوانین کی جزئیات ہم عامیوں کو سمجھانے کے لئے مگر کوئی تیار نہیں ہوتا۔ کاروباری افراد کو نیب سے ’’محفوظ‘‘ رکھنے کیلئے جو آرڈیننس جاری ہوا ہے اس کی تفصیلات ومضمرات کو میں تمام تر کوششوں کے باوجود یہ کالم لکھنے تک سمجھ نہیں پایا ہوں۔ قومی اسمبلی یا سینٹ میں واقعتا اس ضمن میں کوئی مدلل بحث ہوئی تو شاید دریافت ہو جائے کہ تازہ ترین آرڈیننس کے ذریعے میں نے اور آپ نے کیا کھوپایا یا پایا ہے۔فی الوقت آپ کو اطلاع یہ دینا ہے کہ ہفتے کے روز اسلام آباد کے F-8سیکٹر میں صبح نو بجے سے سہ پہر کے تین بجے تک بجلی نہیں تھی۔ یہ واقعہ شاید اسلام آباد کے مذکورہ سیکٹر ہی میں نہیں ہوا۔ اس کالم میں جب بھی ہردوسرے دن اپنے گھر میں بتی نہ ہونے کا تذکرہ کرتا ہوں تو متعلقہ کالم کے سوشل میڈیا پر پوسٹ ہوتے ہی ملک بھر کے کئی علاقوں سے مجھے ٹویٹس کی بھرمار کے ذریعے آگاہ کیا جاتا ہے کہ ان کے گھروں میں بھی ہر دوسرے روز ’’سسٹم اپ گریڈ‘‘ کے بہانے کئی گھنٹوں تک بتی غائب ہوجاتی ہے۔میرے اور آپ کے گھروں میں جو بجلی آتی ہے وہ کسی ’’سخی‘‘ کی خیرات نہیں ہے۔ ہم اس کی قیمت ادا کرتے ہیں اور بجلی کے نرخ تقریباََ ہر مہینے بڑھتے چلے جارہے ہیں۔بجلی کے بلوں کو باقاعدگی سے ادا کرتے دیہاڑی دار اور تنخواہ دار افراد لاکھوں کی تعداد میں ہیں۔ بطور صارف ان کے چند حقوق بھی ہیں۔ اس حق میں اہم ترین یہ بھی ہے کہ مجھے پیشگی یہ اطلاع دی جائے کہ میرے گھر میں کن وجوہات کی بناء پر فلاں اوقات میں بجلی میسر نہیں ہوگی۔ اپنے اس نام نہاد ’’حق‘‘ کو مگر ہم لاکھوں افراد کسی صورت بھی حاصل نہیں کرپاتے۔ کامل بے بسی سے بجلی لوٹ آنے کا انتظار کرتے رہتے ہیں۔
جمہوری نظام میں سیاسی جماعتیں خاص طورپر اپوزیشن میںبیٹھے ا فراد ہمارے ذہن میں اُبھرے سوالات کا حکومتوں کو جواب فراہم کرنے کو مجبور کرتی ہیں۔ ہماری اپوزیشن یہ فریضہ انجام نہیں دے پارہی۔ اس کی سرکردہ قیادت جیلوں میں ہے۔گرفتار شدگان کے لئے ’’انصاف‘‘کی دہائی مچاتی رہتی ہیں۔ ’’انصاف‘‘ کی دہائی کو مجھ جیسے دیہاڑی دار کالم نگار ہرگز غیرمناسب قرار نہیں دیتے۔ مثال کے طورپر رانا ثناء اللہ کے ساتھ جو ہوا اس کا بھی نہایت دیانت داری سے انتہائی دُکھی دل سے تذکرہ کیا تھا۔محض دہائی مگر سیاسی عمل نہیں ہے۔ خلقِ خدا کے بے تحاشہ ٹھوس مسائل کا ذکر بھی ’’سیاسی‘‘ عمل کیلئے لازمی ہے۔ہماری سیاسی جماعتیں مگر اس کے لئے آمادہ نظر نہیں آرہیں۔کئی مہینوں سے اس کالم کے ذریعے آپ سے فریاد کررہا ہوں کہ ان دنوں ہم پر نازل ہوئی معاشی مشکلات کا اصل منبع IMFکے ساتھ ہواوہ معاہدہ ہے جس کے ذریعے ہماری معیشت کو بحال کرنے کے بعد ’’خوش حال‘‘ بنانے کے دعوے کئے جارہے ہیں۔ ’’تبدیلی‘‘ کے لئے جدوجہد کرتے ہوئے عمران خان صاحب نے کئی بار ہم سے عہد کیاتھا کہ وہ IMFسے رجوع کرنے کے بجائے خودکشی کو ترجیح دیں گے۔مجھ جیسے بدنصیب اصرار کرتے رہے کہ دورِ حاضر میں پاکستان جیسے ممالک کے لئے عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے ورلڈ بینک اور IMFجیسے Regulatorsیا نگہبانوں سے مسلسل رجوع کرنے کے علاوہ کوئی اور راستہ موجود ہی نہیں رہا۔ ذہین سیاست دان البتہ IMFسے رجوع کرتے ہوئے اپنے پتے اس انداز میں کھیلتا ہے کہ مذکورہ ادارے سے ہوا معاہدہ اس کے عوام کی زندگی اجیرن نہ بنائے۔عمران حکومت نے مگر IMFسے مذاکرات کرتے ہوئے ایسی مہارت نہیں دکھائی۔ بالآخر جو پیکیج تیار ہوا وہ IMFہی کے ایک چہیتے ڈاکٹر حفیظ شیخ کی بدولت نصیب ہوا۔وہ تحریک انصاف کے باقاعدہ رکن اور نمائندہ نہیں۔ایک Technocratہیں۔ جن کی صلاحیتیں زرداری حکومت سے قبل جنرل مشرف کو بھی میسر رہی تھیں۔حفیظ شیخ کو مگر شوکت عزیز کے ذریعے ’’چیک‘‘ کیا جاتا تھا۔آصف علی زرداری نے بارہا ان صاحب کی مہارت کو ’’لگام‘‘ ڈالنے کی کوشش کی تھی۔ عمران حکومت اس ضمن میں لیکن کوئی پیش قدمی نہیں لیتی۔ شیخ صاحب پارلیمان یا پارلیمانی کمیٹیوں کو حقیقی معنوں میں جوابدہ نہیں۔ہمیں اعتراف کرنا چاہیے کہ ستمبر2022تک ہم نے معاشی فیصلہ سازی کاملاََ IMFکو Outsourceکردی ہے۔ہماری ’’منتخب‘‘ پارلیمان اس ضمن میں قطعاََ بے اختیار ہے۔اپنے ’’اختیار‘‘ کے تھوڑے ادراک کے بعد اس کے حصول کی ذرا سی کوشش بھی ہمیں ہرگز نظر نہیں آرہی۔ ’’منتخب حکومت‘‘ کو مزید بے بس کرنے کے لئے بلکہ اب پارلیمان ہی کے ذریعے ایک ’’نیا قانون‘‘ متعارف کروانے پر IMFکی جانب سے اصرار ہورہا ہے جو بجلی کے نرخوں کے ضمن میں میری اور آپ کی چیخیں نکلوا دے گا۔ابھی تک یہ ہوتا رہا ہے کہ نیپرا نام کا ادارہ بجلی کے نرخ بڑھانے کی ’’سفارش‘‘ کرتا ہے۔کابینہ اس کے تجویز کردہ نرخوں پر غور کرتے ہوئے بسااوقات عوام کی مشکلات کو ذہن میں رکھتے ہوئے ان نرخوں کی منظوری نہیں دیتی۔ IMFکی جانب سے مگر اب تقاضہ ہے کہ باقاعدہ قانون سازی کے ذریعے نیپرا کو یہ حق دیا جائے کہ وہ کابینہ کی منظوری کی محتاج نہ رہے۔ نرخوں میں جو اضافہ ضروری سمجھے اس کا اپنے تئیں اطلاق کردے۔ مجھے خدشہ ہے کہ IMFکے اس تقاضے پر آئندہ تین مہینوں میں عمل ہو جائے گا۔ ہماری اپوزیشن سینٹ میں بے پناہ اکثریت کے باوجود اسے روک نہیں پائے گی۔

ای پیپر دی نیشن