امید کا سال(2020)

ویسے تو ہر دن بہت سی امیدیں لے کے آتا ہے لیکن 2020بہت سی امیدوں کے ساتھ شروع ہونے والا ہے ۔اس سال دنیا میں بہت کچھ نیا ہونے جارہا ہے ۔لوگ کہتے ہیں کہ وزیر اعظم یو ٹرن لینا چھوڑ دیں تو ان سے گزارش ہے کہ کشکول ہاتھ میں رکھنے والی قوموں کی اپنی کوئی حیثیت باقی نہیں رہتی ۔انہیں پیسے والے اپنی مرضی سے نچاتے ہیں ۔لیکن اب آنے والے سال حالات میں بہت سی تبدیلیاں ہونے جارہی ہیں ۔امریکہ کی طرح ہمارے دوسرے بہت جلد مہربانوں کو احساس ہو جائے گا کہ پاکستان نہیں بلکہ وہ مہربان پاکستان کے مرہون منت ہیں۔سکھ قوم بھی بھارت سے آزادی کا خواب مدت سے آنکھوں میں سجائے بیٹھی ہے اور آنے والے سال وہ بھی بھارت سرکار سے آزادی کے لیے ریفرنڈم کا ارداہ رکھتے ہیں ۔یعنی آنے والا سال امید کا سال ہے اور بھارتی جبر کا شکار بہت سی ریاستوں کی آزادی کا سال ہوسکتا ہے ۔بہت دور کی بات نہیں ابھی پچھلی صدی تک برطانوی راج دنیا کے بہت سے حصوں پر تھا مگر جیسے جیسے عوام کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کی کوشش کی گئی تو عوام نے سامراج سے آزادی حاصل کرنے میں دیر نہ کی۔سویت یونین کا ٹکڑوں میں تقسیم ہونا ابھی کل کی بات ہے ایک ایسی بڑی طاقت جسے دنیا کے فیصلے کرنے کا حق حاصل تھا ۔جب اس نے اپنی حد سے تجاوز کرتے ہوئے افغانستان پر چڑھائی کی تو وہاں سے ہونے والی مزاحمت اسے اندر سے اتنا کمزور کر گئی کہ سویت یونین کے لیے اپنی مرکزیت بچانا ناممکن ہوگیا ۔آج سے چند سال پہلے کچھ تجزیہ کاروں نے کہا تھا کہ کشمیر بھارت کے لیے افغانستان جیسا ثابت ہوگا ۔افغانستان سے روسی فوجیں کب کی واپس جا چکیں ۔امریکی ایک مدت سے افغان جنگ سے باعزت نکلنے کی راہیں تلاش کر رہے ہیں ۔اس باعزت واپسی کے لیے امریکہ کبھی پاک فوج سے مدد مانگتا ہے تو کبھی حواریوں سے پاک فوج کے خلاف محاذ کھڑا کرنے کی کوشش کرتا نظر آتاہے ۔اس بات میں کسی کو شک نہیں رہنا چاہیے کہ پچانوے فیصد پاکستانی اپنی فوج سے دیوانہ وار محبت کرتے ہیںاور جو باقی پانچ فیصد ہیں ان میں سے کچھ کو کچھ جرنیلوں سے شکایت ہے یا ان پانچ فیصد والوں میں وہ شامل ہیں جن کی اولاد کی قومیت اور کاروبار دوسرے ملکوں میں ہے ۔بھارت میں نریندر موذی حکومت اس وقت وہاں رہنے والے مسلمانوں اور دوسری اقلیتوں کو باور کرانے میں کامیاب ہو چکی ہے کہ ہندوستان صرف ہنددوں کا ہے ۔باقی اقلیتوں کے لیے مودی سرکار کے جھنڈے میں کوئی جگہ باقی نہیں بچ رہی ۔اب یہ تو نہیں ہو سکتا ہے کہ بھارت میں مقیم بیس کروڑ مسلمان ,تین کروڑ سکھ,بیس تیس کروڑ دلت عیسائی اور دوسری اقلیتیں وہاں سے کہیں اور چلی جائیں ہاں یہ ہو گا کہ یہ سب آپس میں مل کے بھارتی پرچم سے آزادی حاصل کرلیں ۔موجودہ قانون جو مودی سرکار نے پاس کروالیا ہے اس کے بعد بھارت میں جاری دس کے قریب آزادی کی تحریکیں زور پکڑتی جا رہی ہیں ۔مسلمان جو کئی عشروں سے بھارت سے وفاداری کی قسمیں کھا کھا کے بھی شک و شبہ کی نظر سے دیکھے جا رہے تھے اب وہ مسلمان ہر ڈر کو بھول کے بھارت میں اپنے حق کے لیے سڑکوں پر نکل چکے ہیں ۔ایک ہندو لڑکی کا کہنا تھا کہ اگر پولیس نے اسے یا اس کے ساتھی مظاہرین کو گرفتار کیا تو وہ مسلمان ہو جائے گی ۔ میڈیا کے مطابق ایک کنسرٹ کا آغاز کرنے سے پہلے مشہور بھارتی گلوکار دیلن نائر نے مسلم مخالف شہریت بل پر مودی حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ اگر کسی مسلمان کو بھارت سے نکالنے کی بات کرے گا تو سامنے گولی کھائوں گا۔ مسلمان، عیسائی، سکھ سب ہمارے بھائی ہیں۔
حزب مخالف کی بڑی راہنما اور آل انڈیا کانگریس کمیٹی کی سیکریٹری جنرل پریانکا گاندھی مودی سرکار کو بزدل قرار دے رہی ہیں۔ان کے مطابق ہر ظلم اور طاقت کے استعمال کے بعد بھی بھارت سرکار سے کشمیر میں حالات کنٹرول نہیں ہو رہے ہیں ۔آسام بنگال,جھاڑ کھنڈ اور دوسری ریاستوں میں مودی حکومت کو سخت مشکلات کا سامنا ہے ۔اب وہ اپنی خفت مٹانے کے لیے اور ملک کے لوگوں کی ہمدردیاں حاصل کرنے کے لیے مسلمانوں کے خلاف بل پاس کراچکی ہے ۔لیکن اب کی بار یہ غلطی بھارت کی سالمیت کو نقصان پہنچا سکتی ہے ۔چند روز پہلے دہلی کی جامعہ ملیہ کے گرلز ہاسٹل اور مسجد میں بھی پولیس گھس گئی،جس نے طالبات پر تشدد کیا, بد سلوکی کی اور کئی طلبہ کو گرفتار کر کے لے گئی۔تجزیہ کاروں کے مطابق بھارت کے ٹکڑوں میں تقسیم ہونا طے ہے ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ اقوام متحدہ سمیت دوسری قوتیں بھارتی جبر پر خاموش ہیں ۔بھارت سرکار پولیس ,فوج کو بہت سے اختیارات دے کے لوگوں کا جینامشکل بنا چکی ہے اس لیے بھارتی اقلیتوں کواپنی نسلوں کی بقا کی فکر ہے ۔عالمی تھنک ٹینک انٹرنیشنل کرائسسز گروپ نے بھارت سے کہا ہے کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں جاری بلیک آؤٹ ختم کرے۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی جبر سے بغاوت کو تقویت مل سکتی ہے۔اب حقیقت یہی ہے کہ بھارت ہر طرح کی چالبازی کی کے باوجود کشمیر میں پھنس چکا ہے ۔بھارتی میں کاروباری طبقہ جتنا آج پریشان ہے شاید پہلے کبھی نہیں تھا ۔پاکستان کے لوگوں نے اپنی فوج سے محبت کی,اپنی فوج کے شانہ بشانہ کھڑے رہے ۔نتیجہ فوج کی بہترین حکمت عملی اور قربانیوں سے پاکستان امن کا گہوارہ بنتا جارہا ہے۔
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن