لاہور (وقائع نگار خصوصی) لاہور ہائیکورٹ نے گرین ایریاز میں ہاؤسنگ سوسائٹیز کی تعمیر کے خلاف دائر درخواست میں ایل ڈی اے سے تفصیلی جواب طلب کر لیا ہے اور ہدایت کی کہ ایل ڈی اے بتائے غیر قانونی ہاؤسنگ سوسائٹیز میں بنائے گئے گھروں کا کیا کرنا ہے؟۔ عدالت نے افسوس کا اظہار کیا کہ باغات کی جگہ کو ہائوسنگ سوسائٹیز میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس قاسم خان نے گرین ایریاز پر ہائوسنگ سوسائٹیز کی تعمیر کے معاملے پر سماعت کی اور استفسار کیا کہ لاکھوں پلاٹ گرین ایریاز پر بنے ہیں انکے خلاف کیا کارروائی کی ہے؟۔ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے ریمارکس دیئے کہ ایک روایت تو اسلام آباد سے آئی ہے کہ جرمانہ لگا کہ گھر ریگولرائز کرنا ہے۔ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے تشویش کا اظہار کیا کہ خوراک، سبزیاں، باغات لگنے والوں جگہوں کو ہائوسنگ سوسائٹیز میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ آئین و قانون کے تحت صاف ستھری فضا میں سانس لینا ہر شہری کا بنیادی حق ہے۔ وہ لاہور شہر کے لوگوں کو زندگی دینا چاہتے ہیں۔ وہی قومیں ترقی کرتی ہیں جو اپنے کل کی فکر کرتی ہیں۔ ایل ڈی اے کے وکیل نے بتایا کہ لاہور ڈویژن میں سینکڑوں ہاؤسنگ سوسائٹیز گرین ایریاز پر بنی ہیں اور ان ہائوسنگ سوسائٹیز کی ایل ڈی اے نے کبھی اجازت نہیں دی۔ کئی ہائوسنگ سوسائٹیز ایگریکلچر زون میں ہیں۔ لاہور میں 64 ہاؤسنگ سوسائٹیز گرین ایریاز میں ہیں۔ عوام کو آگاہی دیتے ہیں پلاٹ کی فائل نہ خریدیں۔ چیف جسٹس نے باور کرایا ایل ڈی اے کا ایک صوبے سے شاید زیادہ بجٹ ہے پھر ایل ڈی اے کر کیا رہا ہے۔لاہور ہائیکورٹ میں 626 ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے بارے میں رٹ پٹیشن پر سماعت کی گئی۔ فاضل جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ میں عوام کو سانس لینے کا حق دینا چاہتا ہوں۔ ایل ڈی اے افسروں کی مجرمانہ غفلت کے باعث زرعی رقبوں پر لاکھوں مکانات تعمیر ہو چکے ہیں۔ ایل ڈی اے کا بجٹ پاکستان کے صوبوں سے زیادہ ہے اور ایل ڈی اے افسران بجٹ کے باوجود دھندہ کرنے میں مصروف عمل ہیں۔ چیف جسٹس نے حکم جاری کیا کہ لاہور ننکانہ شیخوپورہ اور قصور میں بننے والی غیر قانونی سوسائٹیز کے مکمل ریکارڈ پر مبنی تفصیلی رپورٹ آئندہ پیشی پر جمع کروائی جائے۔