اسلام آباد(خصوصی نمائندہ)وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے پٹرولیم ندیم بابر نے کہا ہے کہ وزیراعلی سندھ کی جانب سے وزیراعظم عمران خان کو صوبہ سے گیس کی پیداوار اور فراہمی کے حوالہ سے لکھا گیا خط حقائق کے منافی ہے، مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) کے ایجنڈا نمبر 158 پر کونسل کو تفصیلی بریفنگ دی گئی لیکن اس کے برعکس وزیراعلی سندھ نے خط لکھا، شہری کسی ایک صوبے سے تعلق نہیں رکھتے بلکہ پاکستان کے شہری ہیں، ہماری کوشش ہے کہ معاملات کو افہام و تفہیم سے حل کیا جائے۔گزشتہ روز پی آئی ڈی پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ندیم بابر نے کہا کہ ملک میں گیس کی پیداوار اور تقسیم کے حوالہ سے سی سی آئی کے ایجنڈا نمبر 158 پر کونسل کو تفصیلی بریفنگ دی گئی تھی تاہم اس کے باوجود وزیراعلی سندھ نے حقائق کو نظر انداز کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان کے نام ایک خط لکھا۔ اس حوالہ سے انہوں نے کہا کہ جون 2020ء میں صوبہ سندھ میں گیس کی پیداوار 2025 ملین کیوبک فٹ تھی جس میں سے 1562 ایم ایم سی ایف ڈی گیس سندھ میں استعمال ہوئی جبکہ 463 ایم ایم سی ایف ڈی گیس سوئی ناردرن کو الاٹ کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ سوئی ناردرن پنجاب اور کے پی کے میں گیس فراہم کرتی ہے۔ معاون خصوصی نے کہا کہ سوئی ناردرن کو الاٹ کی گئی گیس میں سے بھی 200 ملین کیوبک فٹ گیس سندھ میں واقع دو پاور پلانٹس اور ایک کھاد کے پلانٹ کو فراہم کی گئی، اس طرح صوبہ سندھ سے باہر صرف 261 ایم ایم سی ایف ڈی گیس استعمال ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سندھ کو فراہم کی گئی مجموعی گیس کو اگر پیداوار سے منہا کریں تو صرف 100 ایم ایم سی ایف ڈی گیس سندھ سے باہر استعمال ہوئی ہے۔ ندیم بابر نے کہا کہ وزیراعلی سندھ نے اپنے خط میں لکھا ہے کہ سندھ کی پیداوار 2500 تا 2600 ایم ایم سی ایف ڈی ہے جبکہ سندھ کو ایک ہزار ایم ایم سی ایف ڈی گیس فراہم کی جاتی ہے اور صوبہ میں واقع پاور پلانٹس اور کھاد کے کارخانوں کو وفاق کی جانب سے فراہم کردہ گیس کو سندھ اپنے حصے میں تسلیم نہیں کرتا۔ انہوں نے کہا کہ گیس کی پیداوار و تقسیم کا یہ فارمولا ماضی کی حکومتوں میں طے ہوا تھا لیکن گذشتہ اڑھائی سال کے دوران پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے دوران جہاں سے بھی گیس دریافت ہوتی ہے وہ وہیں ایلوکیٹ کر دی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر سندھ سے پیدا ہونے والی گیس کا تھوڑا سا حصہ ملک کے کسی دوسرے حصے میں استعمال ہو تو کیا سندھ وفاق کے فیصلوں کو تسلیم نہیں کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ گیس کی قیمتوں کے بارے میں غلط اعداد و شمار پیش کئے جا رہے ہیں جو درست نہیں ہیں کیونکہ گیس کی سپاٹ پرچیز ایک ماہ کیلئے ہوتی ہے اور اس کا سال بھر کی قیمتوں کے ساتھ موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ سردیوں میں گیس کی طلب زیادہ اور گرمیوں میں کم ہوتی ہے اس لئے قیمتوں میں بھی فرق ہوتا ہے لہذا اگر موازنہ کرنا ہو تو پورے سال کی قیمتوں کا کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ سال 2020ء کے دوران ایل این جی کے منگوائے گئے کارگوز کی اوسط قیمت 8.6 ڈالر رہی ہے اس لئے کسی ایک کارگو کی قیمت کو لے کر موازنہ نہ کیا جائے جبکہ اس کو سیاسی مسئلہ بنایا جا رہا ہے جو درست نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے جنوری کیلئے 1200 کیوبک فٹ ایل این جی منگوائی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم گذشتہ ڈیڑھ سال سے سندھ حکومت سے گیس پائپ لائن کی راہداری تعمیر کرنے کیلئے اجازت طلب کرتے رہے تاکہ 17 کلومیٹر کی راہداری بنا کر ٹرمینلز کی استعداد میں اضافہ کیا جا سکے۔ ندیم بابر نے کہا کہ ہر سال دسمبر اور جنوری کے دوران گیس کی طلب دو، تین گنا بڑھ جاتی ہے جس سے مشکل پیدا ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر صرف ان دو ماہ کیلئے نیا ٹرمینل لگایا جائے اور باقی پورا سال اس کو استعمال نہ کیا جائے تو اس کے معاشی نقصانات زیادہ ہیں اس لئے نجی شعبہ کو کہا گیا ہے کہ وہ ایل این جی کا ٹرمینل لگائے اور اضافی گیس لا کر صارفین کو فراہم کرے۔
وزیراعلیٰ سندھ کا گیس کے حوالہ سے خط حقائق کے منافی ہے، ندیم بابر
Dec 30, 2020