لاہور (احسان شوکت سے) پنجاب میں جرائم کی شرح میں اتنی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے کہ پولیس نے رواں سال2020ء میں مختلف جرائم کے مختلف تھانوں میں 5 لاکھ 28 ہزار 9 سو 80 مقدمات درج کئے ہیں۔ یوں تقریباً ہرماہ44ہزار جبکہ ہر روز ایک ہزار4 سو 29 ایف آئی آر کا اندراج کیا گیا ہے۔ سال2020 میں امن و امان کی خراب صورتحال، قتل و غارت گری، اغوا برائے تاوان، خواتین وبچوں کے ساتھ زیادتی واغواء، ڈکیتیوں و چوریوں کی بڑھتی ہوئی وارداتوں اور دیگر سنگین جرائم میں خطرناک حد تک اضافے نے شہریوں کی زندگیاں اجیرن بنائے رکھی۔ 2020ء لوگوں کے ذہنوں پر امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال کے حوالے سے بھیانک اثرات چھوڑتے ہوئے کل رخصت ہو رہا ہے۔ 49 ہزار3 سو 98 جبکہ جائیداد، املاک یا مالی نقصان پہنچانے جن میں ڈکیتی، راہزنی، نقب زنی، گاڑیاں، موٹر سائیکلیں، دیگر وہیکلز و مویشی چوری چھپنے کے 2لاکھ 10ہزار 69مقدمات شامل ہیں۔ اس کے علاوہ سپیشل اور لوکل لاز کے تحت ایک لاکھ 42ہزار 6سو 40مقدمات جبکہ دیگر متفرق قوانین کے تحت ایک لاکھ 85ہزار 4سو 27مقدمات درج کئے گئے ہیں۔ صوبہ بھر کے تھانوں میں قتل کے4ہزار 2سو 32، اقدام قتل کے 5ہزار 6سو 30، اغواء کے 15ہزار 7سو 60، اغوا برائے تاوان کے 71، ریپ کے 4 ہزار 80 جبکہ گینگ ریپ کے 2سو 2مقدمات درج ہوئے۔ ڈکیتی کے 8سو 98، رابری کے 17ہزار 9سو 78، راہزنی کے12ہزار 3سو 10، چوری کے ایک ہزار 5سو 40 جبکہ مویشی چوری کے 6ہزار 9 سو 98، وہیکلز چوری کے 22ہزار 9سو 80مقدمات جبکہ وہیکلز چھیننے کے4ہزار2 سو 16مقدمات درج ہوئے۔ حقائق یہ ہیں کہ پولیس سنگین جرائم کے مقدمات درج کرنے سے کتراتی ہے۔ پولیس حکام کی جانب سے شہر میں سنگین نوعیت کے کرائم کو کنٹرول کرنے کے ساتھ ساتھ ان میں ملوث عناصر کے خلاف موثر ترین کارروائیاں عمل میں لانے کے تمام تر دعوئوں کے باوجود جرائم کی شرح میں روز بروز اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جبکہ پولیس کی کارکردگی انتہائی مایوس کن رہی اور پولیس افسروں کے بلند بانگ دعوؤں کے برعکس 2020ء میں عملاً جرائم کے بڑھتے ہوئے واقعات پر قابو نہیں پایا جا سکا ہے۔ رواں سال محکمہ پولیس میں آئی جی سمیت بڑے پیمانے پر اکھاڑ پچھاڑ کا سلسلہ بھی جاری رہا جبکہ پولیس اصلاحات لا کر تھانہ کلچر کی تبدیلی کا خواب بھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکا ہے۔