پاک افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے نئے معاہدے کیلئے مذاکرات کا آغاز اور افغانستان کا بھارت تک رسائی کا تقاضا
پاکستان اور افغانستان کے مابین ٹرانزٹ ٹریڈ کے نئے معاہدے کیلئے پاک افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کوارڈی نیشن اتھارٹی کے تحت تین روزہ مذاکرات اسلام آباد میں شروع ہو گئے۔ ذرائع کے مطابق پاکستان نے وسط ایشیائی ریاستوں اور افغانستان نے بھارت تک رسائی مانگ لی۔ مشیر تجارت عبدالرزاق دائود نے مذاکرات کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو افغانستان اور وسط ایشیائی ممالک کیلئے ٹرانزٹ کا مرکز بنانا چاہتے ہیں۔ انکے بقول ملک میں معیشت کی بحالی کیلئے پی ٹی آئی حکومت کی کوشش ہے کہ ہمسایہ ممالک کے ساتھ تجارت کو فروغ دیا جائے۔ اس سلسلہ میں حکومت کی کوششوں سے افغانستان کے ساتھ گزشتہ چار سالوں سے معطل معاشی مذاکرات بحال ہوئے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ آئندہ سال جنوری کے آخر تک پاک افغان ٹرانزٹ ٹریڈ معاہدہ مکمل ہو جائیگا۔ افغانستان کے ساتھ ترجیحی تجارتی معاہدہ بھی ہوگا تاہم پاک افغان مذاکرات میں بھارتی اشیاء کی ترسیل کا معاملہ زیرغور نہیں۔ ابھی صرف دو طرفہ تجارت پر بات ہو رہی ہے۔ پاکستانی وفد آئندہ ماہ کابل کا دورہ کریگا جس کے دوران دونوں ممالک کے مابین ٹرانزٹ ٹریڈ کا معاہدہ ہو جائیگا۔ افغان وزیر تجارت نثار احمد فائزی کے بقول دونوں ممالک کو سیاست کو تجارت سے الگ کرنا ہوگا۔ افغانستان پاکستان کو وسطی ایشیائی ریاستوں تک رسائی دینے کا خواہش مند ہے اور پاکستان سے بھارتی منڈیوں تک رسائی چاہتا ہے۔
اگرچہ پاکستان اور افغانستان کے مابین 1965ء میں بھی ٹرانزٹ ٹریڈ کا معاہدہ ہوا تھا جس کے تحت افغانستان کو پاکستانی بندرگاہوں کے ذریعے ڈیوٹی فری اشیاء کی درآمد کا حق دیا گیا مگر اس معاہدے میں پاکستان کو سوویت یونین کی منڈیوں تک رسائی کا حق نہیں دیا گیا تھا۔ اس معاہدے کے تحت درحقیقت افغانستان سے سمگل ہو کر پاکستان آنیوالی اشیاء کی قانونی تجارت کا راستہ نکالا گیا تھا مگر یہ معاہدہ دونوں ممالک کے مابین دوطرفہ تعلقات میں سردمہری کے باعث زیادہ کارآمد نہ ہو سکا۔ 70ء کی دہائی میں افغانستان کے راستے سے امریکہ اور سوویت یونین کے مابین شروع ہونیوالی سرد جنگ میں دونوں ممالک نے افغان سرزمین کو اپنے اپنے مفادات کیلئے استعمال کیا اور امریکہ نے پاکستان کی معاونت سے افغان مجاہدین کے ذریعے اس جنگ میں سوویت یونین پر غلبہ حاصل کیا اور سوویت یونین کے حصے بخرے ہوگئے تو امریکہ کے اس پورے خطے کے ساتھ مفادات وابستہ ہو گئے جس نے مقصد نکلنے کے بعد مجاہدین سے آنکھیں پھیریں تو یہی مجاہدین طالبان کے روپ میں امریکی مفادات کیلئے سنگین خطرہ بن گئے۔ اور جب 2001ء میں امریکہ کو نائن الیون کے سانحہ سے دوچار ہونا پڑا تو امریکہ کی جانب سے اس کا سارا نزلہ افغانستان اور پاکستان پر گرا اور اس وقت کے امریکی صدر بش نے افغانستان میں نیٹو فورسز کے ذریعے عملاً پوری مسلم امہ کیخلاف کروسیڈ کا آغاز کیا جس میں بھارت سوویت یونین کے پلڑے سے نکل کر امریکہ کے پلڑے میں آگیا۔ دونوں ممالک میں مسلم دشمنی پر مبنی مفادات کا تال میل ہوا اور افغانستان کی امریکی کٹھ پتلی حکومت بھی امریکہ اور بھارت کے مفادات کے ساتھ جڑ گئی۔
پاکستان اگرچہ افغان جنگ میں امریکی فرنٹ لائن اتحادی تھا مگر بھارت کے زیراثر ہونے کے باعث کابل انتظامیہ کی پاکستان کے ساتھ کشیدگی مزید بڑھ گئی اور ایک موقع پر افغان صدر کرزئی نے نیٹو فورسز کو پاکستان پر حملہ آور ہونے کی دعوت دینے سے بھی گریز نہ کیا۔ اس جنگ میں امریکہ نے افغان دھرتی کا عملاً تورابورا بنا دیا جبکہ بھارت کو بھی امریکی حلیف ہونے کے ناطے افغانستان کی دھرتی کو پاکستان کی سلامتی کیخلاف سازشوں کیلئے استعمال کرنے کا موقع مل گیا جس سے بھارت اب تک فائدہ اٹھا رہا ہے۔
افغان جنگ میں اگرچہ امریکہ کو پہلے ہی پاکستان سے لاجسٹک معاونت حاصل تھی اور پاکستان کے راستے ہی سے نیٹو فورسز کو جنگی سازوسامان اور اشیائے خورد و نوش افغانستان پہنچائی جا رہی تھیں تاہم بھارت نے پاکستان کے راستے سے افغانستان تک آسان رسائی حاصل کرنے کیلئے ٹرانزٹ ٹریڈ کا ایک نیا سازشی منصوبہ تیار کیا جس پر اس وقت کی اوبامہ حکومت کو قائل کرکے بھارت نے 2010ء کے ٹرانزٹ ٹریڈ کے معاہدہ میں اپنی بالواسطہ شمولیت کی راہ نکال لی۔ پاکستان اور افغانستان کے مابین یہ معاہدہ کرانے کیلئے امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن خود چند لمحات کیلئے پاکستان اور پھر افغانستان آئیں اور کابل میں انکی موجودگی میں 2010ء کے پاک افغان ٹرانزٹ ٹریڈ معاہدے پر دستخط ہوئے جس کے تحت بھارت کو افغانستان کے ساتھ تجارت کیلئے واہگہ سے کابل تک رسائی مل گئی۔ اس طرح بھارت کو اپنی برآمدات کابل پہنچانے کیلئے پاکستان کا سڑک کا راستہ استعمال کرنے کی اجازت مل گئی۔ اس معاہدے پر بھارت میں عملاً جشن منایا گیا کیونکہ اس سے درحقیقت بھارت کو اپنے دہشت گرد اور سازشی نیٹ ورک کے دوسرے لوازمات پاکستان میں داخل کرنے کا نادر موقع ملا تھا۔ اس معاہدے کی میعاد آئندہ سال فروری میں ختم ہونی ہے جبکہ اب بھارت کی کوشش ہے کہ پاک افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے نئے معاہدے میں اس کا بھرپور عمل دخل ہو۔ اس کیلئے وہ کابل انتظامیہ کو ہی بطور مہرہ استعمال کررہا ہے چنانچہ افغان وزیر تجارت نے اسی تناظر میں پاکستان سے اسکے راستے سے بھارت تک رسائی طلب کی ہے۔
اگر اس خطے کے دونوں مسلم ممالک پاکستان اور افغانستان کے مابین خوشگوار دوطرفہ تعلقات استوار ہوں تو انکے مابین تجارتی معاہدہ سی پیک کیلئے دوررس اثرات کا حامل ہو سکتا ہے مگر بھارت پاکستان کے راستے سے افغانستان تک رسائی حاصل کرکے پاکستان کی سلامتی کیخلاف سازشوں کا جال پھیلانے کی بدنیتی رکھتا ہے اس لئے ہمیں پاک افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے نئے معاہدے میں بہرصورت محتاط رہنا ہوگا اور اس معاہدے کی بنیاد پر واہگہ سے کابل تک بھارت کا عمل دخل ختم کرنا ہوگا۔ بھارت کے ساتھ تجارت کا تو ہمیں یواین قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر حل ہونے تک سوچنا بھی نہیں چاہیے۔