گذشتہ پندرہ برس سے ایک ادبی رسالے کے مدیر پنجابی، اردو زبان کے منجھے ہوئے شاعر ، کالم نگار اور ہم سب کے جانے مانے ادیب ملک بھر کی ادبی فضاکو سوگوار کر کے یوں اچانک چل بسیں گے کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔موت برحق سہی مگر ایسی جوانی اور ایسی کسمپرسی کے عالم میں مرنا’’ ہائے ایک تیر ہے جو دل اور جگر دونوں کے پار ہوا جاتا ہے۔‘‘ مرحوم جنھیں ان کی خستہ حالی کے باعث محروم کہنا زیادہ مناسب ہوگا ابھی کل کی بات ہے کہ مسلسل پریشانیوں میں گھرے رہنے کے باوجود دوستوں کی محفل میں زندہ دلی کی جیتی جاگتی تصویر بنے ہر وقت ہنستے مسکراتے اور قہقہے بکھیرتے دکھائی دیتے تھے۔ انہوں نے پچھلے کچھ عرصہ سے ایک قومی روزنامے میں سماجی اور معاشرتی موضوعات پر کالم لکھنے کا سلسلہ بھی شروع کر رکھا تھا جو اپنے ہلکے پھلکے اور شگفتہ انداز کے باعث قارئین میںبڑی حد تک اپنی جگہ بنا چکا تھا ۔ ان کا کہنا تھا کہ’’ بطور کالم نگار اور ایک شاعر کے وہ اپنے ہنرکو ذاتی مفادات کی بجائے مفادِ عامہ کیلئے استعمال کرنے پر یقین رکھتے ہیں‘‘یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنے کالموں کوروٹی روزی کا ذریعہ بنانے کیلئے کسی سیاسی پارٹی ،دھڑے یا نظریے کی وکالت کی بجائے پوری دیانت داری سے ہمیشہ ملک و قوم کی بہتری کی بات کی۔کسے گمان تھا کہ کہ آنیوالی قیامت خیز گھڑیوں میں ظالم اجل ایسے اصول پسند،محب وطن،ایماندار اورخوبصورت تخلیق کار کو ہم سے یوں جدا کردیگی کہ آئندہ ساری عمر انہیں دیکھنے کو ہماری آنکھیں ترسیں گی مگر موت کا فرشتہ بھلا ایسے امکانات پر کب دھیان دیتا ہے۔طے شدہ وقت پر بندہ لے اڑنے کا اسے تو بس بہانہ چاہیے اور وہ لے اڑا بلکہ اس بار تو بغیر بہانے ہی کے لے اڑا۔ مرحوم حسب ِ معمول اپنے دفتر جانے کیلئے علامہ اقبال ٹائون سے جس ویگن میں سوار ہوئے وہ وحدت روڈ سے ہوتی ہوئی ابھی مسلم ٹائون موڑ تک ہی پہنچی تھی کہ انہیں دل کا شدید دورہ پڑا۔انکے لباس اور خستہ حالت کے پیشِ نظر ویگن کی دیگر سواریوں نے دل کے دورے کو مرگی کے دورے سے تعبیر کیا اور ابتدائی طبی امداد یعنی ’’فرسٹ ایڈ کے طور پر وہ انہیں دیر تک جوتیاں سنگھاتے رہے اسی علاج معالجے میں پتا نہیں کس وقت انکی روح جسم سے پرواز گئی۔اس دوران ویگن ڈرائیور ٹیپ ریکاڈر پر نورجہاں کے پنجابی گانے اونچی آواز میں لگا کر اپنے معمول کے مطابق ویگن چلاتا رہا اور سواریاں بھی اترتی چڑھتی رہیں۔مزنگ چونگی سے اگلے سٹاپ یعنی’’جنازہ گاہ‘‘ کے قریب ایک تجربہ کار سیانے بابے نے مرحوم کی نبض دیکھ کر ان کی موت کا باقاعدہ اعلان کیا تو ویگن کا ڈرائیور اور کنڈیکٹر گواہی کے سلسلے میں تھانے کچہری کے چکروں سے بچنے کیلئے ویگن کو سواریوں سمیت وہیں کھڑا کر کے خاموشی سے فرار ہوگئے۔اسکے بعد سیانے بابے سمیت ویگن کی باقی تمام سواریاں بھی مرحوم کی اچانک موت پر کفِ افسوس ملتے ہوئے ایک ایک کر کے وہاں سے کھسک گئیں۔کسی گمنام فون کال کے نتیجے میں کافی دیر کے بعد متعلقہ علا قے کی پولیس وہاں آئی تو انہوں نے آتے ہی مرحوم کی شناخت کے سلسلے میں انکی جیبوں کی تلاشی لی جن سے تیرہ سو پچیس روپئے نقدی،بجلی، گیس اور پانی کے غیر ادا شدہ بل ایک عدد آفس کارڈ جس میں اُن کی تصویر کے ساتھ عہدہ اور دفتر کا ایڈریس لکھا ہوا تھا نکلے۔اس کے علاوہ ادبی رسالے کے قارئین کی طرف سے مرحوم کو لکھے گئے چند توصیفی خطوط اور ادب اور ادیبوں کی فلاح و بہبود کیلئے قا ئم حکومتی ادارے کے چئیر مین کی طرف سے لکھی گئی ایک سرکاری چٹھی بھی ملی۔ جس میں چیئرمین صاحب نے ادبی جرائد اور اخبارات کیلئے سرکاری اشتہارات اور حکومت کی طرف سے معقول ماہانہ فنڈز کے سلسلے میں مرحوم کی گذارشات کے جواب میں اپنی مخلصانہ کوششوں کا بڑی تفصیل سے ذکر کیا تھا لیکن نامعلوم کن وجوہات کی بنا پر پر انہوں نے آخر میں اس چٹھی کو کہیں شائع نہ کرنے کی ہدایت بھی کی تھی۔اسکے علاوہ مرحوم کی جیب سے راشن کی لسٹ اور ڈاکٹر کے لکھے ہوئے دوائیوں کے نسخے کے ساتھ اُن کی ایک عد د غیر مطبوعہ غزل بھی ملی جس میں انہوں نے غزل کے عاشقانہ یا فاسقانہ مضامین کی بجائے بڑی خوبصورتی سے خودپر گزرنے والے پُردرد حالات کی تصویر کشی کی تھی۔مرحوم جن کو مرحوم لکھتے ہوئے کلیجہ منہ کو آتا ہے ایک ایماندار،محنتی ، ہنس مکھ اور ادبی گروہ بندیوں سے دورمحبت کرنیوالے انسان تھے۔احباب گواہ ہیں کہ تمام تر محرومیوں کے باوجود مرحوم نے عمر بھر اپنے ادبی جریدے کے ذریعے کسی طمع اور لالچ کے ادب اور ادیبوں کی بے لوث خدمت کی ۔انکے ادبی مقام و مرتبے اور حیثیت کے بارے تو کوئی سکہ بند نقاد ہی بہتر رائے دے سکتا ہے۔