سال 2020 ء کی رخصتی اور 2021 ء کی آمد 

عیسوی سال 2020ء کا اختتام ہوا چاہتا ہے ‘ کل (جمعرات) 31 دسمبر کی شب 12 بجے اپنی ’’طبعی عمر‘‘ پوری کر کے 2020 ء کا ہندسہ کیلنڈر سے معدوم ہو جائے گا اور واقعی 2020 ء ’’گیا وقت‘‘ بن جائے گا جو عالم رنگ و بو ‘ ماہ و سال کی دنیا اور حساب زندگی کے گوشوارے میں کبھی پلٹ کر نہیں آئے گا۔ تاہم امیدیں ‘ توقعات پرانے سال کی طرح نئے سال سے بھی وابستہ ہیں ‘ کچھ لوگ ’’2020ئ‘‘ کو کوس رہے ہیں ‘ نحوست اور مشکلات اس کے کھاتے میں ڈال رہے ہیں ‘ کرونا جیسی عالمی اور مہلک وبا کا سزاوار اس کو ٹھہرا رہے ہیں۔ کسی نے رزق کی کمی بیشی کو سال 2020 ء سے نتھی کر رکھا ہے ‘ کوئی روزگار کے ذرائع اور اسباب کی کمی بیشی کو اس کے ساتھ جوڑ رہا ہے ‘ کسی نے محبت میں ناکامی کا سال قرار دیا ‘ کسی نے ہجر و فراق کا سال کہا تو کسی نے وصال و ملاپ کا نام دیا۔ کسی نے اعزاء و اقارب کے بچھڑنے کے باعث اسے حزن و ملال کا سال کہا‘ افراد ہی نہیں ‘ پوری قوم اس قسم کے جذبات رکھتی ہے۔ رعایا کے ساتھ ساتھ حکمران اپنی تمام تر کمزوریوں کو اس کے کھاتے میں ڈال رہے ہیں۔ اپوزیشن بھی اپنی ناکامیوں کا ذمہ دار ’’2020 ئ‘‘ کو ٹھہرا رہی ہے۔ ہر فرد و بشر‘ جماعت ‘ معاشرہ ‘ پارٹی اور گروہ جتنا ’’2020ئ‘‘ کو مطعون کر رہے ہیں ‘ اپنی ناکامیوں اور بے چینیوں پر مورد الزامات ٹھہرا رہے ہیں اتنی ہی امیدیں ہم نے ’’2021 ئ‘‘ کے ساتھ وابستہ کر لی ہیں۔ ’’2020ئ‘‘ کو یاس اور حسرتوں کا سبب قرار دیا جا رہا ہے تو ’’2021ئ‘‘ کو ’’پیامبر‘‘ مسرت کو انبساط کہا جا رہا ہے ‘ حکمران بھی خوش ہیں کہ نئے سال میں ہم نئے عزم کی گردان دہرائیں گے ‘ پھر پورا سال توجہ اسی پر مرکوز رہے گی کہ ’’2020 ‘‘ جیسے تیسے بھی گزرا ‘ اب 2021 ء عوام کا سال ہوگا ‘ عام آدمی کو ریلیف ملے گا‘ ’’2020 ‘‘ میں رہ جانے والی ساری کسر نکال دیں گے‘ اپوزیشن پکارے گی یہ سال تبدیلی کا ہو گا ‘ پچھلے سال کی طرح حکومت کو ڈھیل د یں گے نہ ڈیل ہو گی۔ عوام نے بہت صبر کیا ‘ اب حقوق چھین کر ہی رہیں گے لیکن عوام بے چارے جانتے ہیں کہ ’’2021 ‘‘ میں بھی ان کا نصیب نہیں بدلے گا ‘ نحوست نہیں چھٹے گی ‘ یاس اور ناامیدی ختم نہیں ہو گی ‘ دودھ اور شہد کی نہریں نہیں بہیں گی ‘ ’’من و سلوٰی‘‘ بھی نہیں اترے گا ‘ شہر کے حاکم تک لوگوں کی رسائی آسان نہیں ہو گی ‘ قانون و انصاف میں عام آدمی کا ماضی کی طرح رواں برس بھی کوئی حصہ نہیں ہو گا ‘ سماج بھی رنگ نہیں بدلے گا ‘ دھوپ اور سائے بھی فطری قانون کے پابند رہیں گے اب کے برس بھی زندگی پر جبر کا تسلسل رہے گا ‘ نیا سال بھی یہی بتائے گا کہ وطن امیروں کے لیے ہے اور وطن کی محبت غریبوں کے لیے رہے گی۔ نئے سال کی آمد کے حوالے سے سب نے منصوبہ بندی کر رکھی ہے ‘ نجومی پیش گوئیوں سے خود کو منوا رہے ہیں‘ حکمران قوم سے پھر نئے عہد و پیماں باندھ رہے ہیں‘ اپوزیشن سیاستدان بھی نئی چمک دمک کے ساتھ آ رہے ہیں۔ صنعتکار و سرمایہ دار نے بھی اہداف مقرر کر لیے ہیں‘ قانون و انصاف بھی خم ٹھونکے ہوئے ہے۔ عوام بے چارے پھر دھوکہ کھانے کو تیار اور امید لگائے بیٹھے ہیں کہ کاش نئے سال میں ترقی و خوشحالی کے دیپ محلات کے ساتھ ساتھ جھونپڑیوں میں بھی جلیں ۔ کاش کوئی لاعلاج نہ مرے۔ کاش قانون ظالم کو نکیل ڈال سکے ‘ مظلوم کو انصاف ملے۔ حوّا کی بیٹی کو احترام ملے‘ آزاد جنم لینے والا انسان ضروریات زندگی کے لیے غلام نہ بن جائے۔ کاش نئے سال میں بیٹی کے علاج کے لیے باپ کو گردہ نہ بیچنا پڑے۔ مہندی سجانے کی امید میں بابل کی دہلیز پر بیٹھی بیٹیوں کے سروں میں چاندی نہ اترنے لگے ‘ روٹی ‘ کپڑا ‘ مکان ‘ تعلیم ‘ صحت ‘ روزگار کا محض نعرہ ہی نہ رہے بلکہ ضروریات زندگی سب کو مساوی میسر ہوں‘ ٹھیک ہے ’’من و سلوٰی ‘‘ نہ اترے ‘ دودھ اور شہد کی نہریں نہ بہیں ‘ مزدور کی تنخواہ ایک تولہ سونے کے برابر نہ ہو ‘ لیکن جینے کے لیے تو سہولتیں عوام کو دیدیں‘ ریاست مدینہ کے دعوے ‘ وعدے اور گردانیں چھوڑ دیں کیونکہ یہ کسی ’’ایرے ‘ غیرے ‘‘ کے بس کی بات نہیں ‘ عوام کے جینے کے لیے نہیں ‘ صرف موت کو آسان بنانے کے لیے اقدامات کر دو ۔ کیونکہ عوام بھی جانتے ہیں کہ نیا سال بھی پرانے جیسا ہو گا بقول فیضؔ 
اے نئے سال بتا ‘ تجھ میں کیا ہے نیا پن 
ہر طرف خلق نے کیوں شور مچا رکھا ہے 
روشنی دن کی وہی ‘ تاروں بھری رات وہی 
آج ہم کو نظر آتی ہے ‘ ہر ایک بات وہی 
آسمان بدلا ہے افسوس ‘ نہ بدلی ہے زمیں 
ایک ہندسے کا بدلنا کوئی جدت تو نہیں 
اگلے برسوں کی طرح ہونگے قرینے تیرے 
کسے معلوم نہیں ‘ بارہ مہینے تیرے 
تو نیا ہے تو دکھا صبح نئی ‘ شام نئی 
ورنہ ان آنکھوں نے دیکھے ہیں‘ نئے سال کئی 
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن