میاں محمد بخش کا شعر ہے:۔؎
ساتھی ٹُردے جاندے وسدے کیوں کر سُکھ وسیندا
بنھو بھار تیار سفر دا کوچ سنیہے آئے
اچانک کسی نہ کسی ساتھی کے انتقال کی خبر مل جاتی ہے تو دنیا کی بے ثباتی کا احساس زیادہ ہونے لگتا ہے۔ انسان بڑی عجیب طبیعت کا مالک ہے۔ یہ مرے ہوؤں کو روتا ہے اور زندہ کو رُلاتا ہے۔ ’’اردو ریاست‘‘ کے مصنف اختر مرزا سے میری صرف ایک ملاقات ان کی اقامت گاہ پرہوئی۔ انہوں نے 21 جولائی 2020ء میں مجھے اپنی کتاب ارسال کی۔ میں نے کالم لکھ دیا۔ میرے کالم کو انہوں نے اس قدر پسند کیا کہ 18 صفحات پر مشتمل خط لکھ دیا۔ پھر کیا تھا کہ ان کے متعدد خطوط ملنے شروع ہو گئے جو ذاتی نوعیت کے نہیں بلکہ ملکی حالات اور ان کے تجربات و مشاہدات پر مبنی تھے۔ 20 نومبر کو اختر مرزا کے انتقال کی خبر سید فراست بخاری کے ذریعے ملی۔ فراست بخاری بھی شاعر اور ادیب کے باوصف مرزا صاحب کی طرح شوقیہ فوٹو گرافر ہیں۔ انکے البم میں نامور شخصیات کی ہزاروں تصاویر محفوظ ھیں۔ فراست بخاری، اختر مرزا کے انتقال پر بہت دکھی تھے۔ انہوں نے مرزا صاحب کی یاد میں دو شعر لکھے:۔؎
تجھ سے مل کر مجھے لگا جیسے
تیرے ملنے کی جستجو تھی مجھے
تیرا مرنے کا غم بھی ہے لیکن
تیرے جینے کی آرزو تھی مجھے
فضل حسین اعوان صاحب سے اختر مرزا کی دوستی تھی اور وہ فون پر اکثر ان کا تذکرہ پیار بھرے انداز میں کرتے۔ انتقال سے چند روز قبل مرزا صاحب کے تین چار خطوط مجھے ملے۔ ان طویل خطوط کا جواب لکھنے کے بجائے میں فون پر ذکر کر دیتا۔ وہ اپنے دو مضامین کا تذکرہ کرتے جو شائع نہ ہو سکے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان مضامین کے ساتھ دو نادر تصاویر بھی ارسال کی گئیں ان میں ایک تصویر 1946ء کو سیالکوٹ میں اتاری گئی۔ یہ تصویر انکی پاکستانی بیج کے ساتھ تھی جو قیام پاکستان سے قبل انھوں نے اپنی شرٹ پر لگایا ہوا تھا۔ دوسری تصویر نسرین حیات کی تھی جو آرٹسٹ اور انٹرئیرڈیزائنر تھی۔ اس نے لندن سکول آف ڈیزائننگ سے ڈپلومہ حاصل کیا تھا۔ سابق گورنر پنجاب شاہد حامد کی بہن اور مرزا صاحب کی بیوی کی بھابی۔ اختر مرزا نے اپنے ایک خط میں لکھا ’’جب نواز شریف تیسری بار وزیراعظم بناتو ٹی وی پر میں نے ایک Clip دیکھا جو مجھے آج تک یاد ہے۔ نواز شریف کے سامنے اسحاق ڈار بیٹھا ہے۔ نواز شریف، اسحاق ڈار کی طرف شریر نظروں سے دیکھتا ہے اور سرہلا کر کہہ رہا ہے کہ تم تیار ہو جاؤ۔ جواب میں اسحاق ڈار تابعداری سے سرہلا کر اپنا فرض نبھانے کیلئے تیار ہوتا ہے۔ اسکے بعد اسحاق ڈار ورلڈ بینک سے قرضہ لینے واشنگٹن جاتا ہے اور حسبِ معمول کئی ملین ڈالر قرضہ لے کر لوٹتا ہے۔ گئے گزرے زمانے میں تلوار، بندوق کے زور سے فتوحات ہوتی تھیں۔ اب معاشی فتوحات ہو رہی ہیں جن میں IMF اور ورلڈ بینک وغیرہ غریب ممالک کو دبائے بیٹھے ہیں اور خوب دولت کما رہے ہیں جس کا سود اربوں ڈالر کی مد میں ادا ہوتاہے‘‘ ایک خط میں مرزا صاحب لکھتے ہیں۔ ’’ہمارے معاشرے میں لوگ بڑے تنگ نظر ہیں، کسی کو ابھرتا ہوا دیکھ نہیں سکتے۔ راستے میں روڑے اٹکاتے ہیں۔ لہٰذا ایک عام بندہ حوصلہ ہار کر بیٹھ جاتا ہے۔ نہ خوشی رہی نہ غم، بھنور میں پھنسا رہ جاتا ہے۔ آپ بڑے باہمت انسان ہیں جو لمحہ لمحہ جیا اور کامیابیاں حاصل کیں۔ آپ علامہ اقبال کے شاہین ہیں۔ خودی سے ہمکنار ہوتے ہوئے باوقار رہے‘‘ دو دسمبر کو پنجابی اور اردو کی شاعرہ، افسانہ نگار اور صحافی منزہ شاہد کے انتقال کی خبر بھی ملی۔ منزہ شاہد سے میری کبھی ملاقات نہیں ہوئی مگر انکے شوہر افضال شاہد سے دوستی رہی۔ افضال شاہد معروف شاعر، ادیب، صحافی، ڈرامہ نگار، ٹی وی پروگراموں کے میزبان، مترجم اور کالم نگار تھے۔ آپ فخر زمان کی ورلڈ پنجابی کانگریس کے جنرل سیکرٹری بھی رہے۔ انکی کتابوں کے نام ہیں۔ خمینی کے دیس میں (سفر نامہ) اس نے کہا آوارگی (محسن نقوی کے بارے میں) چور دروازہ (کالم) افضال شاہد 3 فروری 2012 ء میں وفات پا گئے۔ منزہ شاہد شادی سے قبل ’’منزہ سلطانہ‘‘ تھیں۔ اسکا کہنا تھا کہ ہماری یہ ارینجڈ میرج تھی۔ منزہ شاہد کی شاعری صوفیانہ رنگ کی ہے۔ ’’حق عشق عشق‘‘ اس کا شعری مجموعہ ہے۔ جو دسمبر 2019ء میں شائع ہوا۔ اس کتاب کا فلیپ امین خیال نے لکھا۔ کتاب میں کافیاں اور نظمیں شامل ہیں۔ امین خیال نے لکھا کہ منزہ کے معنی ہیں۔ عیبوں سے پاک۔ اپنے نام کی مناسبت سے اس نے صاف ستھری زندگی بسر کی۔ اسکی نظمیں الہیاتی ہیں۔ جن میں علم الٰہی اور فلسفہ حکمت بیان کیا گیا ہے۔ اسکی نظموں اور کافیوں میں دنیا داری کے بجائے ربی پیار نظر آتا ہے۔ جن میں خدا کا وجود اورذات و صفات کا ذکر ہے۔ اس نے صوفیانہ رنگ میں کافیاں لکھیں۔ منزہ شاہد نے پنجابی میں بچوں کیلئے بھی شاعری کی۔ اسکی نظمیں بچوں کا رسالہ ’’پکھیرو‘‘ میں مسلسل شائع ہوتی ہیں۔ ’’پکھیرو‘‘ کے ایڈیٹر اشرف سہیل نے مجھے بتایا کہ منزہ شاہد مجھے اپنا بھائی کہتی تھی۔ اس نے یہ رشتہ آخر دم تک نبھایا۔ منزہ، بچوں پر لکھی گئی نظموںکا مجموعہ اپنی زندگی میں مکمل کر گئی تھی مگر شائع نہ ہو سکا۔