جنوبی افریقا میں نسلی امتیاز کے خلاف جنگ میں اہم کردار ادا کرنے والے آرچ بشپ ڈیسمنڈ ٹوٹو گزشتہ دنوں 90 برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔ ڈیسمنڈ ٹوٹو ایک بہت ہی دلچسپ کردار تھے اور اپنے مزاج کی نیرنگی کی وجہ ہی سے وہ اپنی ایک منفرد پہچان رکھتے تھے۔ ایک استاد والد اور گھریلو ملازمہ والدہ کے ہاں 7 اکتوبر 1931 ء کو جوہانسبرگ کے مغربی علاقے میں پیدا ہونے والے ڈیسمنڈ نے زندگی میں بہت سی ناہمواریاں دیکھیں اور پھر ان کا مقابلہ کرنے کے لیے کمر کس لی۔ ان کی جدوجہد اور مساعی کے لیے انھیں 1984ء میں امن کا نوبیل انعام دیا گیا۔ ویسے تو ان کی بہت سی باتیں دنیا کو یاد رہیں گی لیکن مذہب کے نام پر کیے جانے والے استحصال سے متعلق ان کی ایک بات دلچسپ ہونے کے ساتھ ساتھ نہایت قابلِ غور بھی ہے، کہتے ہیں، ’جب مسیحی مبلغین افریقا آئے تو ان کے پاس انجیلِ مقدس تھی اور ہمارے پاس زمین۔ انھوں نے کہا، چلو دعا مانگتے ہیں۔ ہم نے آنکھیں بند کرلیں۔ جب آنکھیں کھولیں تو انجیلِ مقدس ہمارے پاس تھی اور زمین ان کے پاس۔‘ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ یہی بات امریکا کے ایک دیسی یا ریڈ انڈین سردار سے بھی منسوب کی جاتی ہے تاہم اس کی ڈیسمنڈ ٹوٹو سے نسبت کے شواہد زیادہ معتبر ہیں۔
نسلی امتیاز کی مخالفت میں یا انسانی حقوق کے لیے ڈیسمنڈ ٹوٹو نے جو جدوجہد کی اس کا دائرہ عملی طور پر افریقا تک ہی محدود رہا لیکن انھوں نے فلسطینی علاقوں پر اسرائیل کے ناجائز قبضے کے خلاف آواز بلند کر کے یہ ثابت کیا کہ وہ صرف افریقا ہی نہیں بلکہ دنیا بھر سے نسلی امتیاز کے خاتمے کے خواہاں ہیں اور دنیا میں جہاں کہیں بھی نسلی امتیاز کی بنیاد پر لوگوں کے حقوق غصب کیے جارہے ہیں اور ان پر ظلم و ستم ہورہا ہے وہ اس کے خلاف آواز اٹھانا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ یہی وہ معاملہ ہے جو ڈیسمنڈ ٹوٹو کو دنیا کے بہت سے ممالک میں انسانی حقوق کے علم بردار ہونے کے بہت سے دعویداروں سے ممتاز اور ممیز کرتا ہے۔ خاص طور پر پاکستان میں ایسے بہت سے افراد اور غیر سرکاری تنظیمیں موجود ہیں جن کا دعویٰ یہ ہے کہ وہ انسانی حقوق کے لیے سرگرم ہیں لیکن اگر ان کے کام کا جائزہ لیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ انسانی حقوق کے ضمن میں ان کی تمام سرگرمیاں صرف اس دائرے تک محدود ہیں جو مغرب کا بنایا ہوا ہے۔ اس دائرے میں کیونکہ اسرائیل کی مخالفت میں بولنے کی گنجائش نہیں ہے اس لیے وہ اس کے خلاف بات کرنے سے کتراتے ہیں۔
خیر، انسانی حقوق کے ذکر سے یاد آیا کہ دس ارب ڈالر کی لاگت سے تیار ہونے والی دنیا کی سب سے بڑی خلائی دوربین جیمز ویب سپیس ٹیلی سکوپ (James Webb Space Telescope) کو 25 دسمبر کو خلائی مشن پر روانہ کردیا گیا ہے۔ اس دوربین کی تیاری کے منصوبے کی تکمیل میں تیس برس کا عرصہ لگا ہے اور اب اسے زمین سے پندرہ لاکھ کلومیٹر دور خلا میں بھیجا گیا ہے تاکہ نئے ستاروں اور سیاروں کو ڈھونڈنے میں انسان کی مدد کرے اور ہمیں یہ دیکھ کر بتائے کہ کائنات میں کہیں اور زندگی کے شواہد موجود ہیں یا نہیں۔ قبل ازیں، ہبل سپیس ٹیلی سکوپ (Hubble Space Telescope) کو بھی ایک ایسے ہی مشن پر 24 اپریل 1990ء کو بھیجا گیا تھا لیکن جیمز ویب دوربین کے برعکس ہبل دوربین نے زمین کے مدار میں رہ کر اپنا کام کیا۔ بہت اچھی بات ہے کہ انسان کا تلاش اور جستجو کا سفر جاری و ساری ہے لیکن یہ ایک تکلیف دہ حقیقت ہے کہ زمین پر زندگی کی مختلف شکلیں اور انسانیت تیزی سے معدوم ہورہی ہیں اور اس بات پر کوئی توجہ نہیں دی جارہی۔ ایسی ہی صورتحال کے بارے میں اردو اور پنجابی کے معروف شاعر انور مسعود نے کہا تھا:
سمٹ رہے ہیں ستاروں کے فاصلے انور
پڑوسیوں کو مگر کوئی جانتا بھی نہیں
اس سلسلے میں ایک اہم بات یہ ہے کہ زمین سے نکل کر کائنات کے دوسرے حصوں میں زندگی کے آثار ڈھونڈنے کی کوشش کرنے میں سب سے اہم کردار ادا کرنے والے ملک امریکا کو ہی یہ ’اعزاز‘ بھی حاصل ہے کہ اس نے گزشتہ ساڑھے سات آٹھ دہائیوں کے دوران دنیا میں سب سے زیادہ تباہی اور ہلاکت آفرینی کی ہے۔ جاپان کے شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر بالترتیب 6 اور 9 اگست 1945ء کو گرائے جانے والے ایٹم بم ہوں یا افغانستان کے صوبہ ننگرہار کے ضلع اچین پر 13 اپریل 2017ء کو گیارہ ٹن دھماکا خیز مواد کے برابر قوت رکھنے والے سب سے بڑے غیر جوہری بم ’مدر آف آل بومبز‘ (Mother of All Bombs) کا گرایا جانا، یہ سب امریکا ہی کے کارنامے ہیں۔ امریکا کے یہ سب کارنامے دنیا میں اس کے توسیع پسندانہ عزائم اور نسلی تفوق کے اظہار ہی کی مختلف شکلیں ہیں، اور بھارت کا مقبوضہ جموں و کشمیر میں نہتے اور معصوم کشمیریوں پر ظلم و ستم اور صہیونیوں کا اسرائیل نامی ناجائز ریاست بنا کر فلسطینیوں کے علاقوں پر قبضہ کرنا اور ان کے خون سے ہولی کھیلنا بھی توسیع پسندانہ عزائم اور نسلی تفوق ہی کی ذیل میں آتا ہے۔ اندریں حالات، ہم کائنات کے دوسرے حصوں میں جیمز ویب سپیس ٹیلی سکوپ کی مدد سے زندگی کے مزید آثار تلاش کر بھی لیں تو جب تک کوئی ایک فرد یا گروہ خود کو کسی دوسرے کا حق چھیننے کا اہل یا خود کو کسی دوسرے سے نسلی طور پر برتر و بہتر سمجھتا رہے گا تب تک زندگی سے جڑے ہوئے انسانی حقوق خطرے میں رہیں گے اور ہمیں ان کے تحفظ کے لیے ڈیسمنڈ ٹوٹو جیسے انسانی حقوق کے حقیقی علم برداروں کی ضرورت رہے گی۔