انسان دوست بزرگ اخبار نویس قاری ولی الرحمان بتا رہے تھے کہ جب وہ نوائے وقت سے منسلک ہوئے تو اکرام شیخ صاحب کو حد سے زیادہ ملنسار اور ہمدرد پایا۔ جلد ہی پتہ چل گیا وہ کسی خاص علاقہ سے متعلق افراد یا شخصیات سے محبت و الفت نہیں کرتے، ان کا مشفق رویہ سب کے ساتھ یکساں ہے۔ اللہ کریم غریق رحمت کرے آمین‘ 85 سالہ اکرام الحق شیخ چلنا پھرتا پاکستان اور محبان نوائے وقت میں شامل تھے۔ مرتے دم تک نوائے وقت سے عشق ان کے معمولات کا حصہ رہا وہ نوائے وقت کے ایک ایک کارکن کی عزت واحترام کے ساتھ ان سے اپنا تعلق فخر سے بتاتے ۔ یاد ہے کچھ عرصے قبل جب ہم اپنے سینئر کو لیگ اسلم چوہان کا جنازہ پڑھ چکے تھے تو سارے احباب اکرام شیخ صاحب کے گرد جمع ہوگئے ! میں نے کہا کہ شیخ صاحب ’’چوہان صاحب جلدی چلے گئے‘‘ کہنے لگے اب اس کارواں کے جانے کا وقت آگیا ہے جس کا ہم بھی حصہ ہیں گویا ہم نے بھی جانا ہے ! محترم قاری ولی الرحمان نے یہ بھی بتایا کہ مولانا فضل الرحمان کے والد کی جب راولپنڈی آمد ہوتی اورمحترم مفتی محمود پریس کانفرنس کرتے تو وہ گفتگو اس وقت تک شروع نہیں کرتے جب تک نوائے وقت کے چیف رپورٹر اکرام الحق شیخ صاحب نہ آتے! ’’نوائے وقت‘‘ کا اپنا قد کاٹھ تھا مستزاد شیخ اکرام صاحب کی عجزوانکسار سے مرقع شخصیت… وہ ہمیشہ دوستوں ‘ کارکنوں اور احباب کی خوشی غمی کا حصہ رہے۔ کسی کارکن کا عزیز فوت ہو جاتا تو شیخ
صاحب جنازے میں ضرور شرکت کرتے ۔ان ہی انسان نواز رویوں نے انہیں اس مقام رشک تک پہنچا دیا تھا جہاں پہنچنے میں لمبی مسافت طے کرنا ہوتی ہے۔ 28 دسمبر 2021ء کی شب محبت‘ عقیدت اور غمگسار اخبار نویس اللہ کو پیارے ہوئے، انہیں اگلے روز ایچ الیون اسلام آباد کے قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔ نوائے وقت اسلام آباد میں اکرام شیخ صاحب چیف رپورٹر اور پھر ایڈیٹر رپوٹنگ رہے ،علاقائی نامہ نگاروں کے انچارج رہے، قائمام ریذیڈنٹ ایڈیٹر رہے۔ غرض کہ وہ جس عہدے اور جس ذمہ داری پر رہے اپنی عادات واوصاف میں یکساں پائے گئے۔ ہم نے کبھی شیخ صاحب کو غصہ میں نہیں دیکھا، کبھی ان کو کسی سے پانی لانے کی فرمائش ( حکم دیتے) نہیں دیکھا وہ اپنا کام خود کرنے کی عمدہ مثال قائم کر کے گئے۔ ’’نوائے وقت‘‘ میں بڑے نام کے حامل رپورٹر ‘ سب ایڈیٹرز‘ نیوز ایڈیٹر یہاں تک ریذیڈنٹ ایڈیٹر بھی ان کے پاس آکر احترام وتکریم سے بات چیت کرتے! وہ نوائے وقت کے سٹاف اور کارکنوں کے لیے ہمیشہ رحم دل رہے۔ عیدین کے مواقع پر انہیں دوستوں (کارکنوں) کو خاموشی سے عیدی دیتے دیکھا، بعض کارکنوں کو وہ عیدی ٹھیک ٹھاک دیتے تھے۔ شیخ صاحب کی رحلت پر نوائے وقت ہاؤس میں ہر شخص نے ان کا تذکرہ ادب وعقیدت کی شمع روشن کرکے کیا۔ انہوں نے اپنی حیات میں اور صحافتی زندگی میں کسی کو بالواسطہ یا بلاواسطہ نقصان نہیں پہنچایا۔پریس کلب کے الیکشن یا کسی ایونٹ میں ملاقات ہوتی تو ہم ایک ہی بات دوھراتے کہ شیخ صاحب یاداشتیں لکھ لیں، وقت تیزی سے گزرہا ہے۔ ہوسکتا ہے پھر یہ ٹائم نہ آئے وہ ہر بار وعدہ کرتے اور ہر بار مصروف ہو جاتے۔ شیخ صاحب نوائے وقت کے عاشق اور محترم مجید نظامی کے محبان میں شامل تھے نظامی صاحب سے ان کی محبت یکطرفہ نہ تھی ۔ نظامی صاحب اسلام آباد آتے تو شیخ صاحب سے ضرور اور خصوصی ملاقات کرتے! شیخ صاحب نے نظامی صاحب سے اس غیر معمولی تعلق کا کبھی اظہار نہیں کیا۔ کبھی کبھی ہم شیخ صاحب سے ان کی رپورٹنگ کے دور کے قصے سنتے۔ وہ ہر سوال کا خندہ پیشانی سے جواب سے دیتے! ضیاء دور میں پیپلز پارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کی سب سے پہلے خبر ’’نوائے وقت ‘‘ میں شائع ہوئی اور یہ خبر اسلام آباد سے اکرام شیخ کی کریڈیٹ لائن سے شائع ہوئی تھی۔ خبر کیا تھی سماجی‘ عوامی اور سیاسی زندگی میں طوفان آگیا۔ شیخ صاحب نے بتایا کہ اگلے روز بی بی سی نے نوائے وقت کا نام اور شمارہ دکھلا کر دنیا بھر کو بھٹو کی پھانسی سے آگاہ کیا۔ نوائے وقت آفس کے دوستوں ضمیر حیدر‘ صغیر عباسی‘ حاجی محمد شیراز‘ محمدسعید چوہدری‘ قمرالاسلام‘ اسد عباس ‘ عترت جعفری‘ ابراھیم مروت‘ راجہ حنیف‘ طفیل فانی‘ نعمان ملک‘ فیصل عرفان چوہان‘ حاجی سلیم تھہیم‘ یاسر سیال‘ محمد اشرف سیال، غلام مصطفٰی، سعد نثار،مصطفی خٹک ‘ عبیداللہ سلہری‘ مشتاق شاہ‘ محمد امین اور فیصح اللہ خان محمد عارف ، رحمانذادہ ، اورنگیزیب سمیت کارکنوں نے شیخ صاحب کو خوب یاد کیا ، خوب باتیں کیں۔ آخر میں فیصل آباد کے خالد شریف کا شعر شیخ صاحب کی نذر
بچھڑا وہ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی
اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا