پاکستان مقروض اور مفلوک ہے اور پاکستانیوں کی ایک غالب اکثریت ناشاد ہے لیکن کیوں؟ نظریہ پاکستان ( اسلامی شریعت کے مطابق دینی ، معاشرتی زندگی ، نظام حکومت ) اور اپنے بانی پاکستان ؒ کی ہر معاملے میں روگردانی اور حْکم کو بالائے طاق رکھ کر 22 کروڑ کا نیوکلیئر پاور مْلک کے باشندے دْنیا کے ہر ایئر پورٹ پر تلاشی دیتے ہیں ؟ ہم نے اخلاق و کردار کے لحاظ سے بہترین معاشرہ بن کر دْنیا کو شریعت محمدی ؐکا اعلی ترین نمونہ پیش کرنا تھا اور ثابت کرنا تھا کہ اسلامی نظام حیات ہی ہر دور میں سب سے قابلِ عمل اور فلاح انسانیت کا بہترین ذریعہ ہے لیکن ہم نے تو 180 سے بھی زیادہ کا ‘‘’’یو ٹرن’’ ( لیا نہیں ) مار دیا ہے اور دْنیا کو دین اسلام پر اْنگلی اْٹھانے کا موقع دیکر ہم کتنے گنہگار ہو رہے ہیں ؟ ہم نے تو اتنا صاحبِ کردار بننا تھا کہ ہمارا اخلاق تبلیغ و اشاعتِ اسلام کا ذریعہ بنتا لیکن یہ کیا ؟ کہ پاکستانیوں کا اخلاق و کردار دیکھ کر قبول اسلام کی نیت کیے ہوئے لوگ بھی مسلمان ہونے سے پھر جاتے ہیں۔ ہمارے قائد ؒنے تو اتنے اعلی اخلاق کا درس دیا تھا کہ ہم دْنیا میں اپنے عمل سے پھیلاتے تو تحریک پاکستان اور نظریہ پاکستان کو حصولِ آزادی کی تحریکوں میں سب عظیم جدوجہد قرار دیا جاتا ۔۔
قائداعظم ؒ نے فرمایا تھا ‘‘’’’’ اپنے فرض کی ادائیگی میں کوتاہی نہ کریں اور اللہ تعالی پر ہی صرف کامل توکل رکھیں کرہ ارض پر کوئی قوت ایسی نہیں جو پاکستان کو ختم کر سکے۔ یہ ہمیشہ قائم رہنے کے لیے بنا ہے۔ ‘‘( لاہور یونیورسٹی گراؤنڈ، 30 اکتوبر 1947ء قائدؒ کا خطاب )اب سوال یہ ہے کہ کیا ہم نے نظریہ پاکستان کے مطابق مْلک کی بْنیادوں پر بانیان پاکستان کی قائم کردہ پالیسیوں کو جاری رکھا؟ کیا ہم نے اپنا اپنا فرض پْوری ایمانداری اور جانفشانی سے ادا کیا؟کتنے لوگ ہیں پاکستان میں جنہوں نے اپنی زندگیوں کو استحکام پاکستان کے لیے وقف کیا۔۔ قائد اعظم کی بھی ایک خاندانی زندگی تھی اور خوش رہنے کے سب وسائل بھی، لیکن عظیم ترین قائد نے اپنے آقا کریم ؐ کی غلام بنائی گئی اْمت کی خاطر ایک آزاد ، خود مْختار اور خالص نظریاتی اسلامی مملکت بنانے کے لیے اپنی زندگی کی ساری خوشیاں حتٰی کہ اپنی صحت بھی قْربان کر دی۔۔ اور ایک سوال یہ بھی ہے کہہمارا اپنے اللہ پر کتنا کامل توکل ہے؟ کہ جو روکھی سْوکھی مل جائے کھا کر شْکر ادا کریں۔ کیا ہم نے اپنی چالاکی، ہوشیاری، مکاری اور عیاری سے قومی اقدار اور خزانے کا بْھرکس نکال کر نہیں رکھ دیا؟ہمارے اولوالعزم قائد اعظم ؒ نے ہمیں کتنا پْختہ اور عظیم تر نظریہ دیا ہے۔ کیا ہم اْس پر عمل کر رہے ہیں اْنہوں نے حصول پاکستان کے حوالے سے جس عزم کا اظہار کیا کاش ہم بھی پاکستان کی فلاح و بہبود کے لیے اتنے ہی پْختہ فکروعمل کا مظاہرہ کرتے۔ قائد نے فرمایا۔’’میرا روئے سْخن ( انگریز )حکومت اور کانگرس دونوں سے ہے کہ آپ کبھی بھی ہماری روحوں کو مفتوح اور مغلوب نہیں کر سکتے۔ آپ الگ الگ ہم سے نبرد آزما ہوں یا دونوں مل کر ہم پر حملہ آور ہوں ، آپ کبھی بھی اس اسلامی کلچر کو تباہ نہیں کر سکیں گے جس کے ہم وارث اور مالک ہیں اور جو ہمیں ورثہ میں ملا ہے۔ یہ اسلامی روح ہمیشہ ہمارے اندر زندہ رہی ہے اور زندہ رہے گی۔ جو جی میں آئے آپ کر کے دیکھ لیجیے۔ ہمیں بے شک اپنے ظْلم و ستم کا نشانہ بنائیے۔ بھلے ہمارے جسموں کو کْچل ڈالیے ۔ بے شک ہمیں سخت سے سخت اذیت پْہنچانے سے بھی دریغ نہ کیجیے لیکن چاہے کْچھ بھی ہو جائے ہم نے ہر صورت تہیہ کر لیا ہے کہ اگر ہمیں مَرنا ہی ہے تو مردانہ وار مریں گے ہتھیار ڈال کر ہرگز نہیں مریں گے اور نہ ہی اپنے حق سے پیچھے ہٹ کر مریں گے بلکہ آخری دَم تک لڑتے ہوئے جانیں دے دیں گے ‘‘’’)( 22 مارچ 1939ء سنٹرل اسمبلی میں قائد اعظم کی ولولہ انگیز اور ایمان افروز تقریر )کاش ہم پاکستانیوں نے اسی عظیم الشان عزم کا مظاہرہ کر کے پاکستان کی ترقی کے لیے کام کریں اور نظریہ پاکستان کے مطابق اپنی زندگیوں کو اْستوار کر کے مْلک کی ترقی میں اپنا اپنا کردار نبھائیں تو کوئی طاقت پاکستان کو دْنیا کا عظیم ترین مْلک بننے سے نہیں روک سکتی فقط تین سال کے لیے ہر پاکستانی مفاد پرستی اور انا پروری ترک کر کے اسی طرح بے لوث ہو جائے جس طرح مہاجرین و انصار مدینہ نے ہجرت کے چند سال بعد تک ایمان باللہ کے سوا سب کْچھ فراموش کر دیا تھا۔اللہ رب رحمن و رحیم ہمارے قائدِ اعظم محمد علی جناح کو آقا کریم ؐ کی محفل میں حضرت حمزہ ؓ کے دائیں بازو کے ساتھ جگہ عطا فرمائے آمیں۔